کروشیا میں بھی مہاجرین کو غیر انسانی سلوک کا سامنا

465
ادلب: شامی پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے امدادی کارکن احتجاجی مظاہرہ کررہے ہیں

برلن/ کینبرا (انٹرنیشنل ڈیسک) کروشیا کی پولیس منظم طریقے سے پناہ گزینوں کو بوسنیا وہرزیگووینا واپس بھیج رہی ہے۔ جرمن رپورٹوں کے مطابق ایسا مہاجرین کو سیاسی پناہ کی درخواست کا موقع دیے بغیر کیا جا رہا ہے۔ یہ رپورٹ جرمنی کے مشہور میڈیا اداروں نے مل کر تیار کی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران کروشیا نے تقریباً 65 پناہ کے متاشی افراد کو زبردستی واپس بھیجا، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق مہاجرین کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ بدھ کے روز انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یونان کے سرحدی اہل کاروں پر بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے تھے۔ دوسری جانب شام کے مہاجر کیمپوں میں داعش کے مبینہ جنگجوؤں کے خاندان کے افراد آسٹریلوی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے درجنوں شہریوں کو وطن واپس لے جائے۔ کیمیل ڈاباوزی کی سڈنی میں پیدا ہونے والی بیٹی مریم اور ان کے 3 بچے اس وقت شمال مشرقی شام میں الروج کے مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ وہ ان 60 آسٹریلوی شہریوں میں شامل ہیں جو اس کیمپ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ سفارتکاروں کے لیے یہ بے حد خطرناک بات ہے کہ وہ ان کو وطن واپس لانے کے لیے علاقے کا دورہ کریں۔ ڈاباوزی کا کہنا ہے کہ اس وقت سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہے اور ان کی بیٹی اور نواسے نواسیوں کو گھر لایا جا سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ علاقہ دوبارہ کسی بھی وقت شورش کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق داعش کے مبینہ جنگجوؤں کی بیواؤں اور بچوں پر مشتمل 10 ہزار افراد ان 70 ہزار لوگوں میں شامل ہیں، جنہیں الروج اور الہول کے حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ یہ اعدادو شمار امریکا میں قائم تھنک ٹینک نیوز لائن انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجی اینڈ پالیسی نے ترتیب دیے ہیں اور ادارے کے مطابق ان افراد میں زیادہ تر شام اور عراق کے شہری ہیں۔