افغانستان کی مکمل فتح کیوں ضروری ہے؟

523

سامراج کی شدید خواہش ہے کہ طالبان کسی ایسے سیاسی سودے پر راضی ہو جائیں جو ان کے شرکت اقتدار پر منتج ہو اور جس کے نتیجے میں افغانستان میں قائم کردہ سامراج کا سیاسی نظام کسی نہ کسی حد تک برقرار رہے۔ حکومت پاکستان بھی اس کی شدید خواہش رکھتی ہے اور مخلصین دین کے بہت سے حلقے بھی اس قسم کی سودے بازی کو مفید تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اسی طرح افغانستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ ہم اسلامی انقلابی ہیں اور جہاد افغانستان کو سرمایہ داری کے خلاف جاری عالمی جہاد کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے افغانستان میں امارت اسلامیہ کی مکمل اور غیر مشروط فتح کے متمنی ہیں۔ نہایت خوشی کی بات ہے کہ برادر بزرگ گلبدین حکمت یار اسی موقف کو اختیار کرتے آ رہے ہیں اور ہمارے امیر محترم سراج الحق نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ طالبان کو افغانستان پر غلبہ 1996 میں حاصل ہوا تھا اور 2002 کے اوائل تک وہ وہاں اسلامی معاشرتی اور سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیاب رہے۔ دسمبر 2001 میں سامراج نے افغانستان پر وحشیانہ حملہ کر کے اس اسلامی حکومت کو اکھاڑ پھینکا اور اپنے ماتحتوں کے ذریعے ایک ذیلی سرمایہ دارانہ اقتداری نظام قائم کر دیا۔ تمام ریاستی ادارے (نوکر شاہی، عدلیہ، فوج، مقننہ) سرمایہ دارانہ دہری خطوط پر مرتب کیے گئے۔ سود اور سٹہ اور دیگر طرائق حرام خوری کے کاروبار خوب پھیلے۔ مقبوضہ افغانستان کا ریاستی کاروبار سامراجی بھیک کے سہارے چلنے لگا۔ معاشرے میں سرمایہ دارانہ اقدار عام ہونے لگیں۔ فواحش کے پھیلا کو سراہا گیا۔ عورتیں بازار میں آ بیٹھیں۔ روایتی طرز زندگی میں سامراجی دراندازی عام ہو گئی۔ ریاست کی تحکمی صوابدید مجروح ہو گئی اور عملا افغانستان امریکا کی کالونی بنا دیا گیا۔
کرزئی حکومت سے مفاہمت کا عملاً مطلب اس سوا کچھ نہیں کہ اس فاسد اور پلید طرز حیات اور نظام حکومت کو اقداری جواز فراہم کیا جائے جس کے نتیجے میں لامحالہ افغانستان میں عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ معاشرت، معیشت اور سیاست ضم ہوتا چلا جائے گا اور اس نظام زندگی اور طرز حیات کے احیا کے امکانات قطعاً معدوم ہو جائیں گے جو امارت اسلامیہ کے تحت 1996 سے 2002 کے اوائل تک افغانستان میں قائم تھا۔
طالبان کی افغانستان میں عظیم الشان فتح ہماری دورِ حاضر کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ یہ وہ پہلا معرکہ ہے جو ہم سرمایہ دارانہ سامراجی تحکم کے خلاف مکمل طور پر جیتنے کا امکان رکھتے ہیں۔ اس قسم کی مکمل فتح کا امکان فی الحال کہیں اور موجود نہیں، نہ ایران میں نہ جنوبی اور مشرقی لبنان میں نہ وسطی اور غربی افریقا میں۔ اگر طالبان نے یہ نادر موقع کھو دیا تو ہماری سرمایہ دارانہ سامراج مخالف جدوجہد کئی سال پیچھے چلی جائے گی۔
امارت اسلامیہ کا ان خطوط پر قائم کرنا جن پر وہ 1996 سے 2001 تک قائم تھی ایک نہایت مشکل کام ہے بالخصوص افغانستان جیسے چھوٹے اور مفلوک الحال ملک کے لیے۔ اس میں شک نہیں کہ:
جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے
لیکن طالبان کی عدیم المثال فراست اور دلیری سے ہمیں یہ پوری امید ہے کہ جو 1996 تا 2001 میں ممکن ہوا وہ ملا ہیبت اللہ کی قیادت میں دوبارہ بھی کیا جا سکے گا۔
1996 سے 2001 تک طالبان نے جو نظم زندگی اور طرز حیات افغانستان میں قائم اور رائج کیا تھا اس کی بہترین خصوصیت یہ تھی کہ وہ سارے کا سارا نامزدگی، تقلید اور شورائیت پر مبنی تھا۔ اس تنظیمی ڈھانچہ میں جمہوری عمل کا شائبہ تک نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ نفس امارہ کے احکام کے اتباع کا تحکمی جواز جمہوری عمل ہمیں فراہم کرتا ہے اور سرمایہ دارانہ معاشرتی غلبے کے تناظر میں یہ تقریباً ناممکن ہے کہ نفس ناطقہ نفس امارہ کے تابع نہ ہو لہٰذا جمہوریت وہ عمل ہے جو سرمایہ دارانہ غلبے کا فطری جواز فراہم کرتی ہے اور جمہوری عمل کو معاشرتی اور ریاستی سطح پر مسخر کیے بغیر نفس ناطقہ کو نفس مطمئنہ کا متبع نہیں بنا جا سکتا۔
1996 تا 2001 کے دور میں طالبان نے جمہوری عمل کو پورے طور پر مسخر کر لیا تھا۔ فی الحال پاکستان، ایران اور ترکی جیسے ممالک میں یہ کرنا ناممکن ہے اور جمہوری عمل کی معاشرتی اور ریاستی تحدید ہی کے ذریعہ نفس امارہ کی نظاماتی حاکمیت کو مجروح کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہم افغانستان میں جمہوری نظام کے احیا کو برداشت کریں۔ وہاں ایک خالصتاً غیر جمہوری معاشرتی اور ریاستی نظام پہلے بھی کارفرما تھا اور آئندہ بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں حاکمیت اعلی عوام کی خواہشات کے اتباع کے بجائے اتباع قرآن و سنت ہو۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ امارت اسلامیہ افغانستان عالمی سرمایہ دارانہ نظام سے قطعاً منقطع ہو جائے۔ یہ اس وقت تک ممکن نہ ہو گا جب تک ایک طاقت ور اسلامی معاشی، سیاسی اور معاشرتی بلاک قائم نہ ہو (مثلاً پاکستان، ایران، افغانستان اور ترکی کنفیڈریشن) کیونکہ سرمایہ کی رسدی، ترسیلی زنجیریں عالمی ہیں۔ مثلاً طالبان کی انتظامیہ مفتوحہ علاقوں میں یونیسف اور یونیسکو سے تعاون کر رہی ہے (اور لامحالہ کسی نہ کسی حد تک ان سامراجی اداروں کو ان علاقوں میں معاشرت فاسدہ پھیلانے اور تخریب کاری کے مواقع فراہم کر رہی ہے) لیکن اس قسم کے تعاون کو ریاستی نگرانی میں مرتب کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر اس بات کی ضرورت ہے کہ سامراجی قوتوں اور ان کے پروردہ غلاموں کو ریاستی اور معاشرتی ادارہ سازی اور ادارتی کارفرمائی کے عمل کو وضع کرنے کا کوئی اختیار نہ دیا جائے۔
اگر طالبان افغانستان میں ایک غیر جمہوری معاشرتی اور ریاستی نظام کے احیا میں کامیاب ہوگئے تو یہ پوری دنیا کی اسلامی انقلابی قوتوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گا۔ ان شا اللہ۔