مسجد الفتح اور کار سرکار

960

مسجد الفتح کڈنی ہل کی سرکاری عملے کے ہاتھوں تاراج کرنے کی خبر شہر کے لوگوں کو غمگین کر گئی اور ایک عام مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کیا ہم ایک مسلمان ملک میں نہیں رہتے؟ کیا یہ قائد اعظم کا پاکستان نہیں؟ کیا اس ملک کہ اہم مناصب پر بیٹھے ہوئے لوگ یہ بھول چکے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان کے قیام کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں صرف اس لیے پیش کی تھیں وہ ایک ایسے ملک میں رہنا اور بسنا چاہتے تھے جہاں وہ اپنی مذہبی روایات اور شعائر اسلام کے ساتھ زندگی گزار سکیں اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے اپنے جان و مال اور پیاروں کی عزت تک قربان کردی لیکن آج ہمارے ہی ملک میں ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ ہماری مساجد سرکاری احکام کے سامنے بے معنی بنادی گئی ہیں احکامات دینے والے اور ان احکامات پر عمل کرنے والے یہ بھول گئے ہیں مسجد شعائر اللہ کا ایک اہم حصہ ہے اور مسجد وہ جگہ ہے جہاں مسلمان اپنے رب کی ربوبیت کا اعلان کرنے اور اس بات کی تصدیق کرنے جمع ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی ہر سعی کریں گے اور وہاں جمع ہو کر نمازی اپنے رب سے نہ صرف اپنی خیر وسلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں بلکہ اپنے اعزا واقربا اور ملک اور قوم کی سلامتی کے لیے بھی اپنے رب کے حضور گڑ گڑا کر دعا مانگتے ہیں اور ہمارے ارباب حل وعقد قانون کی حکمرانی کے نام پر اس کا گھر بھی تاراج کرنے سے نہیں چوکتے کہ جو اس کائنات کے ایک ایک چپہ کا خالق اور مالک ہے خدا کہ یہ بندے بھول گئے ہیں کہ انہوں نے نماز پڑھنے کی جگہ کا تقدس پامال کیا اور کل ان کی اپنی بھی نماز پڑھی جانی ہے کون ان کی نماز پڑھانے اور پڑھنے کھڑا ہو گا ایک مسلمان سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن وہ یہ بھلانا بھی چاہے تو یہ نہیں بھلا سکتا کہ فلاں فلاں فرد نے مسجد کا تقدس پامال کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا تھا اور چلیں اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ مسجد بلال سرکاری اجازت کے بغیر تعمیر کی گئی تھی تو بھی اس بات کی گنجائش نہیں کہ مسجد کو نعوذ باللہ ڈھا دیا جائے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسجد کی انتظامیہ اور وہاں کہ قریبی رہائشیوں کے ساتھ مل کر اس اہم ترین مسئلہ کا باہمی افہام اور تفہیم سے حل نکالا جاتا اور کوشش کی جاتی کہ سرکاری لائو لشکر کے بجائے اہل علاقہ ہی سے کہا جاتا کہ مسجد کے لیے الگ جگہ لے لیں اور رضا کا رانہ طور پر مسجد کو دوسرے مقام پر منتقل کر لیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے سرکاری اختیارات اور طاقت کے زعم میں لوگ دیگر معاملات کی طرح مذہبی معاملات میں بھی طاقت کے استعمال ہی کو ہر مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر خالق کائنات کو ان کا یہ عمل گراں گزرا تو عقل و خرد سے بے گانہ اور معذور اور مجبور ہو کر کہیں دوسروں کے لیے درس عبرت نہ بن جائیں جیسا کہ ایک مقامی اخبار نے رپورٹ کیا کہ انہدامی کاروائی کے دوران تین بھاری مشینیں خراب بھی ہوگئیں اس کے باوجود بھی سرکاری عملے کو سمجھ میں نہ آئی کہ وہ کیا کررہے ہیں اگر ذرا بھی عقل مند ہوتے تو سمجھ جا تے کہ وہ مشینیں جو انسانی مرضی کے ساتھ چلائی جا رہی تھیں ان کا بند ہو جانا کیا معنی رکھتا ہے لیکن عقل و خرد سے بیگانے یہ اشارہ بھی نہ سمجھ سکے کہ اللہ کہ گھر کو تاراج نہ کریں۔
مساجد کو توڑنے کے احکامات دینے والوں کی بھی ذمے داری ہے کہ اگر کسی علاقے میں سرکاری اجازت کے بغیر مسجد تعمیر ہو بھی گئی ہے تو پہلے تو اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ کوئی مسجد جادو کی چھڑی سے ایک رات میں تو تعمیر ہوئی نہیں ہوگی پہلے کس کی غیر ذمے داری سے مسجد قائم ہوئی اس کے خلاف محکمانہ کاروائی ہونا چاہیے کہ آخر کس کس فرد نے سرکاری ذمے داری کے دوران فرائض سے غفلت کا مظاہرہ کیا اور دوسرے تعمیر شدہ مساجد کو ہٹانے سے قبل جید علماء کرام کی رائے اور سفارشات کو اہمیت دی جانی چاہیے تاکہ اس طرح کے مسائل پیدا نہ ہوں اور عوام میں بھی بددلی نہ پیدا ہو کیوں کہ سرکاری کارندے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر انتہائی غیر ذمے دارانہ حرکتوں کہ مرتکب ہوتے ہیں جیسا کہ اخبارات سے پتا چلا مسجد کی انہدامی کارروائی کو اتنے غیر ذمے دارانہ انداز سے انجام دیا گیا کہ عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، اخبار لکھتا ہے کہ جب موقع پر موجود افراد نے انہدامی کارروائی کرنے والے عملے سے کہا کہ آپ مسجد کے تقدس کا خیال کریں اور جوتوں سمیت مسجد کی صفوں پر نہ چلیں تو ایک افسر نے لوگوں کو کہا کہ آپ لوگ کار سرکار میں مداخلت نہ کریں ورنہ حوالہ پولیس کردیا جائے گا کیا کار سرکار اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت سے زیادہ ہے کار سرکار زیادہ اہم ہے یا مسجد کا تقدس اورکار سرکار انجام دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی اپنے ہر عمل کے لیے روز جزا اللہ کے آگے جواب دہ ہوں گے۔
اللہ کا ایک مسلمان پر سب سے زیادہ حق ہے ایک مومن مسلمان اپنی زندگی اپنے رب کی رضا کہ مطابق ہی گزارنا چاہتا ہے کوئی بھی مسلمان یہ پسند نہیں کرتا کہ لو گ کار سرکار کی آڑ میں مسجد کا تقدس پامال کرتے پھریں اس حوالے سے اعلیٰ ترین انتظامیہ اور عدلیہ کہ ذمے داری ہے کہ ایسے تمام افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے جنہوں نے مسجد الفتح کو فتح کرنے کے زعم میں اور عدلیہ کو اپنی بہترین کارکردگی دکھانے کے لیے مسلمان شہریوں کے مذہبی جذبات کو پارہ پارہ کیا یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے کہ انتظامی عملے میں کیسے نااہل لوگ شامل ہیں جنہیں اس بات کا بھی احساس نہیں کہ مذہبی مقامات کے حوالے سے کس طر ح سے کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ انتہائی ادب کے ساتھ عدلیہ سے بھی دردمندانہ درخواست ہے کہ مذہبی مقامات کے حوالے سے کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے قبل ان مقامات کے ذمے داروں کو بلا کر ان کا بھی موقف جانے اور افہام و تفہیم کہ ساتھ اس طرح فیصلے کیے جائیں کہ کسی بھی طرح انتشار کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ انتظامیہ کے اس طرح کے طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید دین سے دوری کے سبب انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں کہ مسجدیں روئے زمین پر اللہ کا گھر ہیں اور اللہ کے گھر کا احترام ہر فرد پر لازم ہے چاہے وہ کتنا بھی بڑا افسر کیوں نہ ہو۔ اس مسجد سے نہ تو کوئی گزر گاہ متاثر ہو رہی تھی اور نہ کسی کی رہائش گاہ کو نقصان پہنچ رہا تھا اگر یہ پارک میں قائم تھی تو کیا پارک میں مسلمان تفریح و طبع کے لیے نہیں جاتے اور کیا دوران تفریح نماز کا وقت نہیں ہوتا اس مسجد کی موجودگی سے کم از کم یہ تو تھا کہ نماز کا وقت ہوتے ہی لوگ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کا رخ کر لیتے تھے یہ کس قانون میں ہے کہ تفریح گاہ میں مسجد کا قیام ضروری نہیں اور اس کو غیر ضروری سمجھ کر ڈھا دیا جائے اعلیٰ انتظامی افراد کو چاہیے کہ فوری طور پر اپنے رب سے معافی مانگیں کہ ان کا کیا گیا یہ کام کسی طرح بھی قابل ستائش اور باعث فخر نہیں ہم پہلے ہی بے شمار مسائل میں گھرے ہوئے ہیں خدارا مسجدوں کو ڈھا کر خدا کی ناراضی کو دعوت نہ دی جائے ہمارے ہاں اس کی مثالیں موجود ہیںکہ بڑے بڑے لوگوں کی ناجائز تعمیرات جائز کر دی گئیں اور جو مالک ہے بحر وبر کا خالق ہے خشک و تر کا اس کی عبادت کے لیے بنایا گھر نجانے کس کو خوش کرنے اور کس کی خواہش کے احترام میں اجاڑ دیا گیا اللہ ہمارے ارباب اختیار کو وہ عقل و شعور عطا کرے وہ کے مسائل اور معاملات سمجھنے کی صلاحیت حاصل کرسکیں ورنہ واقعات اور حالات تو اس بات کی نشاندھی کررہے ہیں لو گ روئے زمیں پر اپنے آپ کو ہی سب کچھ اور اختیار سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں انسان صرف ایک پانی کے بلبلے کی مانند ہے نجانے کب کس کا وقت آخر آجائے پھر سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔