پیوٹن بائیڈن ملاقات: امکانات اور خدشات

437

 

روسی صدر پیوٹن اور امریکی صدر بائیڈن کے درمیان 6گھنٹے جاری رہنے والے مذکرات کے بعد سب ٹھیک ہے کا عنصر سامنے نہیں آسکا۔ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق امریکی صدر نے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ بدھ کو جنیوا میں ہونے والی ملاقات کے لیے سوئٹزر لینڈ پہنچتے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ سخت ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب دونوں رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ باہمی تعلقات انتہائی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ پیوٹن اور جو بائیڈن نے جی سیون، ناٹو اور یورپی یونین کی سربراہ کانفرنسوں میں شرکت کر کے ان رہنماؤں کو اعتماد میں لیا اور وہاں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ملاقات دوست کی حیثیت سے نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ملاقات گزشتہ چار مہینوں کے دوران دونوں رہنمائوں کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیان بازی کے بعد ہورہی ہے۔ البتہ دونوں ممالک کے صدور نے مذاکرات سے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ تعلقات کو زیادہ ’مستحکم‘ بنانے کے خواہاں ہیں۔
اے بی سی نیوز اور عالمی میڈیا کے مطابق 5گھنٹے تک مذاکرات شکوہ جوابِ شکوہ اور دھونس دھمکی اور سب ٹھیک کرنے کے لیے رضا مندی پر ختم ہو گئے۔ صدر بائیڈن امریکی مفادات کے خلاف روسی سائبر حملوں کے لیے پیوٹن کو مورد الزام ٹھیراتے رہے۔ انہوں نے روسی اپوزیشن لیڈر کو جیل میں ڈالنے پر اسے جمہوریت کی توہین قرار دیا دیتے ہوئے امریکی انتخابات میں مداخلت کے الزامات بھی عائد کیے۔ روسی صدر پیوٹن ان تمام الزامات کی تردید کرتے رہے۔ انہوں نے امریکی الیکشن میں مداخلت کے الزامات مسترد کرتے ہوئے امریکا سے ثبوت پیش کرنے اور سائبر معاملات پر معاہدے کی پیشکش کی۔ حکام کے مطابق بائیڈن اور پیوٹن ابتدا میں اکیلے بات چیت کرتے رہے اس دوران میں ان کے ساتھ صرف مترجمین موجود تھے لیکن بعد میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف بھی مذاکرات میں شامل ہو گئے۔ اور آخری چار گھنٹوں کے دوران دونوں صدور کے ساتھ پانچ پانچ عہدیدار شامل ہو گئے اور تفصیلی بات چیت ہوئی جو چار سے پانچ گھنٹے تک چلتی رہی۔ بات چیت کے اختتام پر کوئی مشترکہ پریس کانفرنس نہیں ہوئی۔ البتہ دونوں رہنما ئوں نے میڈیا سے الگ الگ خطاب کیا۔ دونوں ملکوں کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ہمیں بات چیت سے کسی بڑی کامیابی کی امید نہیں ہے۔ لیکن دونوں صدور نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جوہری جنگ جیتی نہیں جاسکتی اور یہ کبھی نہیں ہونی چاہیے۔ جو بائیڈن اور پیوٹن کے مابین متعدد اہم عالمی امور اور کئی اختلافی معاملات پر جنیوا میں بات چیت مکمل ہو گئی۔ جو بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کو امریکی رہنما نے ’کافی کامیاب‘ اور روسی رہنما نے ’تعمیری‘ قرار دیا۔ دونوں رہنمائوں نے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے ملکوں میں واپس بھجوانے پر اتفاق کیا۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ 50برسوں میں یہ پہلا موقع جب تین ماہ سے دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے سفیر موجود نہیں ہیں۔
امریکا اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں دونوں رہنمائوں نے پہلی مرتبہ براہ راست بات چیت کی۔ میٹنگ کے بعد فریقین نے ایک مختصر سا مشترکہ بیان جاری کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنمائوں نے متعدد عالمی اور باہمی امور کے علاوہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلائوکے معاملے پر بھی بات کی اور وہ اس بات پر متفق تھے کہ ’’جوہری جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور یہ جنگ کبھی نہیں ہونی چاہیے۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے باوجود مشترکہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ’’امریکا اور روس مستقبل قریب میں ایک تفصیلی مربوط باہمی اسٹرٹیجک استحکام ڈائیلاگ منعقد کریں گے۔ اور مستقبل میں ہتھیاروں کے کنٹرول اور خطرات کو کم کرنے کے اقدامات کے لیے زمین ہموار کریں گے‘‘۔
روسی نیوز ایجنسی تاس کا کہنا ہے کہ پیوٹن نے بائیڈن کو ’’متوازن‘‘ اور ’’انتہائی تجربہ کار سیاستدان‘‘ بتاتے ہوئے بات چیت کو ’’تعمیری‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حالانکہ ہم دونوں کے مابین کئی معاملات پر گہرے اختلافات موجود تھے لیکن ’’میرے خیال میں جو بائیڈن اور میں ایک ہی زبان بول رہے تھے۔ پیوٹن سے جب پوچھا گیا کہ جو بائیڈن نے تو ایک حالیہ انٹرویو میں انہیں ’قاتل‘ قرار دیا تھا تو روسی صدر نے کہا کہ امریکی صدر اس سلسلے میں ان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں اپنا موقف واضح کرچکے تھے اس لیے اس سلسلے میں مزید بات بے بنیاد ہے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں ایک دوسرے کی آنکھوں اور دل میں جھانکنے کی ضرورت نہیں، ہم اپنے اپنے ملکوں کے عوام کے مفادات کا دفاع کر رہے ہیں اور ہمارے تعلقات عملیت پسندی پر مبنی ہیں‘‘۔ پیوٹن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ روس اور امریکا جوہری معاملات میں استحکام کی مشترکہ ذمے داری رکھتے ہیں اور جوہری اسلحے کو محدود کرنے کے نئے ’اسٹارٹ‘ معاہدے میں حالیہ توسیع کے حوالے سے ممکنہ تبدیلیوں پرمذاکرات منعقد کریں گے۔
امریکی صدر بائیڈن نے بھی صحافیوں کے ساتھ الگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات بہتر اور مثبت رہی ہے۔ جس بات سے میں متفق نہیں تھا اس کا میں نے کھل کر اظہار کیا اور جس سے وہ متفق نہیں تھے اس کا اظہار انہوں نے کھل کر کیا۔ بائیڈن نے کہابنیادی بات یہ تھی کہ ہم نے صدر پیوٹن سے کہا کہ ہمیں کچھ ایسے بنیادی اصول طے کرنے ہوں گے جن پر ہم عمل کر سکیں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ باہمی مفادات کے ایسے متعدد شعبے ہیں جن میں ہم اپنے عوام کی خاطر ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں اور ان سے دنیا کو اور عالمی سلامتی کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ ان میں سے ایک چیز اسٹرٹیجک استحکام ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے روس میں انسانی حقوق کی صورت حال بشمول امریکا کے دو شہریوں کی گرفتاری کے معاملے پر بات کی۔ بائیڈن کے بقول امریکی شہریوں کو ناجائز طور پر روس میں قید رکھا گیا ہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ وہ روس میں حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کے کیس پر اور روس کے اندر بنیادی انسانی حقوق پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے رہیں گے۔
بائیڈن اور پیوٹن کی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے دارالحکومت میں واپس بھیجنے کا اعلان کیا۔ روس کے نائب وزیر خارجہ نے بتایا کہ واشنگٹن میں متعین روسی سفیر رواں ماہ کے اواخر تک امریکا لوٹ جائیں گے۔ ماسکو میں متعین امریکی سفیر جان سیلوان اس سال کے اوائل میں واپس چلے گئے تھے۔ کریملن کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے حکام سے مشاورت کے لیے واشنگٹن گئے ہیں۔ امریکی سفیرکی روس سے واپسی سے قبل صدر جوبائیڈن نے صدر پیوٹن کو’قاتل‘ قرار دیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے اس ملاقات سے بہت ساری برف تیز دھوپ اور گرماگرم باتوں سے پگھلتی نظر آ رہی ہے لیکن یہ سب کچھ نظر کا دھوکا بھی ہو سکتا ہے۔