لتھوانیا : نسل پرستی کے انکشاف پر 30 جرمن فوجی طلب

175

برلن (انٹرنیشنل ڈیسک) جرمنی نے لتھوانیامیں تعینات فوجیوں میں نسل پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث 30اہل کاروں کو ملک بلالیا۔ جرمن وزیر دفاع نے نسل پرستانہ الزامات کو ذمے دار اہل کاروں کے چہرے پر طمانچے سے تعبیر کیا ، جو ملک کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے دن رات مصروف ہیں۔ وزارت دفاع اور فوج کی ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 30جرمن فوجیوں کو مبینہ نسل پرستی اور جنسی تشدد جیسے الزامات کا سامنا ہے ،جس کے باعث انہیں ملک میں بلالیا گیا ہے۔ وزیر دفاع اینگریٹ کرامپ کارین باوانے کہا کہ جلد ہی تحقیقات کے لیے پورے دستے کو جرمن بلالیا جائے گا۔ اس حوالے سے کوئی بھی فوجی اگر قصوروار پایا گیا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ جرمن جریدے ڈیر اسپیگل کے مطابق حالیہ اقدام کا تعلق گزشتہ برس اپریل میں ہوٹل میں ہونے ہونے والی ایک پارٹی سے ہے، جس میں نسل پرستانہ نغمے گائے گئے۔ اس دوران ایک فوجی نے اپنے ساتھی فوجی کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ فوجی ترجمان کا کہنا تھایہ حرکت ناقابل معافی ہی نہیں بلکہ ہم سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔واضح رہے کہ جرمنی میں تقریبا 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں ، جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ اس سے قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ نے 75 سالہ پرانے تعلق میں تبدیلیاں لانے کا عندیہ دیا تھا ۔ انہوں نے جرمنی سے 12ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیاتھا،تاہم نئی امریکی انتظامیہ کی جانب سے اس حوالے سے کوئی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔