بجٹ وجٹ، ترقی ورقی )آخری قسط(

428

حالیہ بجٹ کے موقع پر حکومت کا یہ دعویٰ کہ پٹڑی سے اُتری ہوئی پاکستانی معیشت دوبارہ پٹڑی پر چڑھ گئی ہے محض منافقت پر مبنی ایک بڑا جھوٹ ہے۔ جن معاشی اشاریوں کرنٹ اکائونٹ خسارے میں زبردست کمی، بیرون ملک سے پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم میں زبردست اضافوں، فصلوں کی بمپر پیداوار اور برامدات میں اضافے کی بنا پر یہ دعویٰ کیا جارہے ہیں ان کی حقیقت آپ نے ملاحظہ کر ہی لی ہے ان معاشی اشاریوں کی بناپر جی ڈی پی کی شرح ترقی 3.94 کو عالمی اداروں سے لے کر ماہرین تک کوئی بھی درست تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔
اگر حکومت کے اس دعوے کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی آنے والے برسوں میں عوام کی مشکلات میں کسی کمی کے کوئی امکان نہیں۔ جی ڈی پی اضافے کو جواز بناکر حکومت کی طرف سے بہتری کے دعوے کی بنیاد ٹریکل ڈائون افیکٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جی ڈی پی میں اضافے کی وجہ سے سرمایہ داروں اور ملک کے بالائی طبقے کے پاس دولت کے ذخائر میں اس حدتک اضافہ ہوجاتا ہے کہ ان کی جمع کی ہوئی دولت سے خفیف مقدار ان کے ہاتھوں سے نیچے گر کر عوام تک پہنچنا شروع ہوجاتی ہے۔ ٹریکل ڈائون ایفیکٹ کی اصطلاح پرویز مشرف کے دور میں بہت سننے میں آتی تھی۔ جب شوکت عزیز ملک کے وزیراعظم تھے۔ 2004 سے 2007 تک ان کے دور میں جی ڈی پی کی شرح 6.2فی صد تھی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ تھاکہ 2004 میں جس آٹے کی قیمت 11روپے کلو تھی وہ 2007 میں 25روپے کلو تک پہنچ گئی تھی۔
زیادہ دن نہیں گزرے جب حکومت کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کو طلب ورسد کے فرق کے ساتھ نتھی کررہی تھی۔ مہنگائی کی وجہ کورونا کے باعث رسد میں پیدا ہونے والی رکاوٹوںکو قراردیا جارہا تھا اور یہ کہا جارہا تھا کہ جیسے جیسے رسد میں رکاوٹیں ختم ہوتی جائیں گی قیمتوں میں بھی کمی آتی جائے گی مگر 9جون ہی کو وزیراعظم عمران خان کے ایک مشیر نے ارشاد فرمایا: ’’ہم قیمتوں کو نیچے لاکر پچھلے درجے تک نہیں لاسکتے لیکن ہم لوگوں کی قوت خرید کو بہتر کرسکتے ہیں تاکہ مہنگائی انہیں متاثر نہ کرے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں جی ڈی پی میں کتناہی اضافہ ہوجائے اشیا کی قیمتیں کم نہیں ہوسکتیں۔ تو پھر اپنے دعوے کے مطابق کیا حکومت عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرپائے گی؟ ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوجائے گا اس بنیاد پر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوگیا ہے لیکن اگر پاکستان کے عوام سے جاکر دریافت کیا جائے تو لوگ یہی کہیں گے کہ ہماری آمدنی میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
سرمایہ دارانہ نظام اشیا کی پیداوار میں اضافے پر زور دیتا ہے، جی ڈی پی کے اضافے پر زور دیتا ہے مگر جو نئی دولت پیدا ہوئی پورے معاشرے میں اس کی منصفانہ تقسیم پر نہ زور دیتا ہے اور نہ اسے یقینی بناتا ہے۔ بلوچستان سب سے زیادہ معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن بلوچستان ہی سب سے غریب صوبہ ہے۔ سندھ وفاق کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس وقت سب سے زیادہ تیل، گیس اور کوئلے کے عظیم ذخائر رکھتا ہے لیکن اس کے 28میں سے 17اضلاع خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ بہار بھارت کا سب سے زیادہ لوہا پیدا کرنے والا صوبہ ہے لیکن سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ جنوبی افریقا دنیا کے آدھے ہیروں اور ایک چوتھائی سونے کا مالک ہے لیکن وہاں کتنی خوشحالی ہے؟ موریطانیہ اور مغربی صحارا میں باکسائٹ کے سب سے بڑے عالمی ذخائر ہیں لیکن یہاں کے صحرا نشینوں کو زندگی کی کتنی بنیادی سہولتیں حاصل ہیں؟ نائجر یورینیم کا تیسرا بڑا عالمی برآمد کنندہ ہے مگر دس غریب ترین ممالک میں سرفہرست ہے۔ جنوبی سوڈان تیل کے ذخائر کے اعتبار سے لیبیا اور نائجیریا کے بعد تیسرا بڑا افریقی ملک ہے مگر دوسرا غریب ترین ملک ہے۔ دولت کے وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ان ممالک میں غربت اور افلاس کی وجہ یہ ہے کہ دولت کا بڑا حصہ ایک مخصوص اقلیت کی تحویل میں ہے اور عوام کی اکثریت کے حصے میں اس دولت کا بہت قلیل حصہ ہے۔ لہٰذا پاکستان میں بھی آنے والے دنوں میں دولت اور اس کے وسائل میں کتنا ہی اضافہ ہوجائے، جی ڈی پی سمیت ترسیلات زر (ریمیٹنس)، برآمدات، زرمبادلہ کے ذخائر میں کتنا ہی اضافہ ہوجائے عوام کے لیے مہنگائی اور غربت میں کمی آنے کا امکان نہیں۔
2020 میں امریکا کی جی ڈی پی تقریباً بیس ہزار ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔ امریکا کی آبادی 33کروڑ ہے۔ یوں فی کس آمدنی تقریباً35ہزار 6سو 72ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دولت کی تقسیم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ بیس فی صد افراد جو زیادہ سے زیادہ کماتے ہیں ان کا امریکا کی دولت میں حصہ 52فی صد ہے جب کہ غریب ترین بیس فی صد امریکیوں کا امریکی دولت میں حصہ 5فی صد سے بھی کم ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق زیادہ تر برسوں میں امریکا کے غریب ترین 20فی صد کا امریکی دولت میں حصہ منفی یا پھر صفر رہا ہے۔ جب امریکا جیسے جی ڈی پی رکھنے والے ملک میںعوام کی بڑی تعداد ملکی دولت میں اپنے حصے سے محروم ہے تو پاکستان اور اہل پاکستان کس شمار قطار میں ہیں۔ سرمایہ دارانظام میں پاکستان یا اس جیسا کوئی اور ملک اپنی جی ڈی پی میں کتنا ہی اضافہ کرلے آبادی کے بیش تر حصے کی آمدنی میں کوئی حقیقی اضافہ نہیں ہوتا اوپر سے مہنگائی انہیں مار دیتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں پوری توجہ صرف اور صرف پیداوار اور دولت میں اضافے پر دی جاتی ہے جب کہ دولت کی منصفانہ تقسیم پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ دولت کی تقسیم کو ٹریکل ڈائون افیکٹ جیسے غیر فطری نظام کے حوالے کردیا جاتا ہے جس میں دولت کی منصفانہ تقسیم اور غریب طبقات تک مساوی رسائی ممکن ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی مسئلے کو درست سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔ اس نظام میں ابتداً ہی یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ وسائل کم ہیں اور لوگوں کی ضروریات زیادہ۔ لہٰذا پیداوار کو ہر صورت میں ممکن حدتک بڑھایا جائے۔ اس لیے وہ ملکیت کی آزادی یعنی ہر شخص ہر چیز خرید سکتا ہے اگر وہ اس کی قیمت دے سکے۔
اس فری اکانومی مارکیٹ میں وہ حکومت کی کم سے کم مداخلت کو لازمی قرار دیتا ہے۔ یوں امیر اور غریب افراد کے درمیان خلیج کسی حدتک کم تو کی جاسکتی ہے لیکن غربت کا خاتمہ اس نظام میں ممکن نہیں اور نہ ہی آج تک اس نظام کے تحت کسی بھی ملک میں خواہ وہ امیر ممالک ہوں یا غریب ایسا ممکن ہوسکا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے برخلاف اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کو معاشی مسائل کا حل قرار دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں معدنیات اور توانائی کے وسائل جو حکومتی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں نجی شعبے کی ملکیت میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست عظیم دولت سے محروم ہوجاتی ہے جس کا ازالہ وہ ٹیکس لگا کر کرتی ہے۔ ستم در ستم یہ کہ ٹیکس بھی سماج کے تمام طبقوں پر منصفانہ طور پر نہیں لگائے جاتے۔ یعنی جو جتنی زیادہ دولت رکھتا ہو وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس ادا کرے اور جو کم دولت رکھتا ہو وہ کم ٹیکس ادا کرے۔ اس نظام میں غریبوں سے مختلف طریقوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جب کہ سرمایہ داروں کو ٹیکس مراعات سے نوازاجاتا ہے۔ اس طرح غریب مزید غریب بلکہ ریاست بھی مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوتے چلے جاتے ہیں اس حدتک کہ ریاست ان کے سامنے بے بس ہوجاتی ہے۔ یہ نظام ریاست کو بڑے بڑے ادارے چلانے سے روک دیتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کی جاسکتی ہے۔ سودی قرضوں، کاغذی کرنسی، اسٹاک مارکیٹ اور بینکوں کو جائز قرار دیتا ہے جس سے دولت کاوہ ارتکاز پیدا ہوتا ہے جس کی بنا پر دولت امیروں کے درمیان ہی گردش کرتی رہتی ہے جب کہ اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چا ہیے۔