ملکی معیشت اور وفاقی بجٹ

364

پاکستانی معیشت میں جون کا مہینہ بڑا اہم ہوتا ہے کیوں کہ مالی سال جولائی تا جون کے لحاظ سے یہ آخری مہینہ ہوتا ہے۔ چناں چہ ایک طرف تو مختلف سیکٹرز میں جو بجٹ طے کیا جاتے ہیں ان کو آخری مہینہ میں خرچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ سڑکوں کی تعمیر، پائپ لائن کی تنصیب، پلوں اور پارکوں کی مرمت وغیرہ کا کام تیز ہوجاتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ کیوں کہ جولائی کے مہینے سے نیا مالی سال شروع ہوتا ہے تو رواں سال کا معاشی جائزہ اور آنے والے سال کے لیے وفاقی اور صوبائی بجٹ بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ چناں چہ پلانگ کمیشن، فنانس ڈویژن، ایف بی آر اور وزارت تجارت وغیرہ میں ملازمین بہت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ جون کے دوسرے ہفتے میں فنانس ڈویژن نے سال 2020-21ء کا معاشی جائزہ (Economic Survey) پیش کیا۔ اس میں عام طور پر 10 سے 11 ماہ کے اعداد وشمار پیش کیے جاتے ہیں جن پر سب سے اہم حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی کیے گئے لیکن حکومت کا کہنا یہ ہے کہ زرعی شعبے میں کپاس کے سوا تمام فصلوں کی پیداوار بہت بہتر رہی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے پیمانے کی صنعتوں اور کنسٹرکشن کے شعبے نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اس وجہ سے معاشی ترقی کی رفتار بہتر رہی۔ مزید یہ کہ ایف بی آر نے 4200 ارب روپے 11 ماہ میں جمع کیے، یہ بھی ایک ریکارڈ ہے، لیکن مالیاتی خسارہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے لحاظ سے 8.1 فی صد رہا، جسے 4 سے 5 فی صد تک ہونا چاہیے۔ برآمدات میں صرف 6.5 فی صد اضافہ ہوا۔ معاشی استحکام کے لیے اس میں کم از کم 15 فی صد اضافہ ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ افسوس ناک بات شرح خواندگی ہے جو معاشی جائزے کے مطابق 60 فی صد ہے۔ 3 سال سے پاکستان کی شرح خواندگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ پاکستان کا مستقبل اس وقت تک روشن اور تابناک نہیں ہوسکتا جب تک شرح خواندگی 80 یا 90 فی صد تک نہ پہنچ جائے۔ پاکستان میں لاکھوں بچے اسکول نہیں جاتے اور بچے کیسے اسکول جاسکتے ہیں کیوں کہ اسکولوں میں نہ تو پینے کا پانی ہے اور نہ بیٹھنے کا کوئی معقول انتظام۔ ایسے میں نہ تو استاد مناسب طریقے سے پڑھا سکتا ہے اور نہ ہی بچے دل جمعی سے پڑھ سکتے ہیں۔ اس معاشی جائزے کے مطابق پاکستان میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.5 فی صد خرچ کیا گیا۔ جب کہ اقوام متحدہ کی ہدایات کے مطابق افرادی قوت کو ہنر مند بنانے کے لیے 5 فی صد خرچ کرنا چاہیے۔ دنیا کے بیش تر ممالک اس سے بھی زیادہ خرچ کررہے ہیں۔ یہی معاملہ صحت کا ہے اس پر بھی جی ڈی پی کا 1.1 فی صد خرچ کیا جارہا ہے، جب کہ بین الاقوامی معیار اور عالمی صحت کے ادارے کے مطابق 5 سے 10 فی صد خرچ کیا جانا چاہیے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معیشت کی بہتری اور استحکام کے دعوئوں میں کتنی صداقت ہے۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی مارکیٹ سروے کے ادارے IPSOD کا ایک سروے آیا ہے جس کے مطابق پاکستانی سوسائٹی کے 90 فی صد لوگ معاشی نمو، کرنٹ اکائونٹس سرپلس، فارن ایکسچینج ریزرو اور مالیاتی خسارے جیسی اصطلاحوں سے ناواقف ہیں۔ اُن کے لیے معاشی بہتری کا پیمانہ یہ ہے کہ مہنگائی کم ہوجائے اور ملازمت باآسانی مل جائے اور ملازمت کو تحفظ حاصل ہو۔ چناں چہ حکومت کو ان پہلوئوں پر غور کرنا چاہیے۔
معاشی جائزے کے اگلے ہی دن فنانس ڈویژن نے وفاقی بجٹ پیش کردیا جس میں مجموعی اخراجات ساڑھے 8 ہزار ارب روپے جب کہ مجموعی آمدنی کا اندازہ تقریباً 8 ہزار ارب روپے ہے، جس میں ٹیکسوں کی وصولی کا حصہ 4 ہزار 8 سو روپے ہے۔ ان مجموعی اخراجات میں 3 ہزار ارب روپے قرضوں کی واپسی اور 14 سو ارب روپے دفاع پر خرچ کیے جائیں گے۔ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے ترقیاتی اخراجات کے لیے 900 ارب رکھے گئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کو 10 فی صد ایڈہاک ریلیف دیا جائے گا۔ موبائل فون پر کال کرنا اور پیغامات دینا مہنگا کردیا گیا اور چھوٹی کاروں کی قیمتوں میں کمی کا اندازہ ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے مطالبے کے باوجود نہ تو بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا ہے اور نہ ہی ٹیکسوں میں کوئی نیا ٹیکس لگایا ہے۔ ٹیکس میں اضافے کے لیے تاجروں سے بات چیت کی جائے گی۔ اصل میں اگر ٹیکس وصولی کا فارم آسان بنادیا جائے اور اس میں کمپیوٹر کا استعمال کم کردیا جائے تو تاجر برادری ٹیکس نیٹ میں آسکتی ہے۔ لیکن اگر ایف بی آر اس بات کو سمجھ لے تو ٹیکس میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ دوسرا مسئلہ آئی ایم ایف کا ہے اگر آگے جا کر آئی ایم ایف نے دبائو ڈالا تو پاکستان کی حکمت عملی کیا ہوگی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔