طالبان کا اہم اعلان

399

افغانستان سے امریکی افواج نے مکمل روانگی کے لیے باقاعدہ آغاز کر دیا ہے یوں تو پچھلے کئی سال سے امریکی افواج افغانستان سے وقفے وقفے سے نکل رہی تھیں اس میں ناٹو ممالک کی افواج بھی شامل تھیں حال ہی میں ناٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ناٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کا عمل درست سمت میں جاری ہے۔ ان غیرملکی افواج کا انخلا 11 ستمبر تک جاری رہے گا۔ لیکن امکان یہ ہے کہ امریکا اس سے قبل ہی اپنی افواج امریکا سے نکال لے گا۔ پنٹاگون نے اس سلسلے میں اشارہ بھی دیا ہے کہ امریکا افغانستان سے اپنی افواج نکالنے میں تیز رفتاری اختیار کر رہا ہے۔ اس دوران تمام ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں اور سولہ ہزار سویلیں کنٹریکٹر کو افغانستان سے نکالا جائے گا۔
افغانستان میں امریکا جانے سے پہلے بھاری مقدار میں ان چیزوں کو تلف کر رہا ہے۔ جنہیں وہ ساتھ نہیں لے جا سکتا بگرام ائربیس افغانستان کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے اس کی تعمیر 1980ء کی دہائی میں سابق روس نے کی تھی۔ پھر جلد ہی روس کے ساتھ سابق کا لفظ لگ گیا اور روس کو افغانستان سے نامراد واپس جانا پڑا اب امریکا کی باری ہے۔ گزشتہ ماہ افغانستان کے دوسرے بڑے غیر ملکی فوجی اڈے قندھار سے امریکی انخلا مکمل کر لیا گیا۔ اگلے پندرہ بیس دن کے اندر بگرام سے بھی امریکی انخلا کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ بگرام میں ایک بہت بڑی جیل بھی ہے جہاں ہزاروں قیدی برسوں سے قید ہیں اس جیل کے اندھیرے اور وحشت ناک قیدخانوں میں ڈاکٹر عافیہ بھی قید تھیں۔ یہاں اب بھی افغانوں کے علاوہ بہت بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی قید ہے۔ کچھ لوگوں کو چھوڑا گیا لیکن وہاں سے رہا ہونے والے شہری آج بھی ذہنی مشکلات کا شکار ہیں۔ اکثریت بے گناہوں کی ہے۔ جن کے سال ہا سال بگرام جیل میں گزرے ان پر انتہائی وحشیانہ تشدد کیا گیا لیکن ان سب کے باوجود ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کبھی ثابت نہ ہو سکے۔ پشاور سے مزدوری کے لیے جانے والا برکت اللہ جس کو 2014ء میں رہا کیا گیا کہتا ہے کہ مجھے چھوٹے سے انتہائی تنگ کمرے میں رکھا گیا۔ روز مارا جاتا سخت سردیوں میں کمرے میں ائرکنڈیشن اور شدید گرمی میں ہیٹر چلا دیتے تھے اور پھر مارتے تھے میں پوچھتا تھا کہ میرا قصور کیا ہے مجھے کیوں مار رہے ہو؟ پوچھنے پر اور مارتے تھے پھر بعد میں میں نے کچھ بھی کہنا یا پوچھنا چھوڑ دیا۔ بگرام میں قید پاکستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق مزدور طبقے یا تجارت سے تھا۔ جو اپنے کاموں کے سلسلے میں افغانستان جاتے تھے۔ ان سب پر القاعدہ اور ان کے اتحادیوں کا الزام لگا کر گرفتار کیا گیا جو کبھی ثابت نہ ہو سکا۔ بگرام جیل سخت وحشیانہ طریقہ تشدد کے باعث افغانستان کا گوانتا ناموبے بے جیل کہا جاتا ہے۔ بگرام کے قیدی جو بھی رہا ہوئے ہیں ان کے ذہنوں میں قید کے دنوں کے اثرات اس قدر نمایاں ہیں کہ وہ اپنی پرانی زندگی میں واپس نہیں جا سکے اور شدید ذہنی مشکلات کا شکار ہیں۔
یہی بگرام جیل اور فوجی اڈا ہے جس سے بیس دن کے اندر امریکا واپس جارہا ہے۔ وہ چاہتے ہوئے افغانستان کو کیسا چھوڑ کر جارہا ہے۔ یقینا یہ وہ افغانستان نہیں جس پر انہوں نے حملہ کیا تھا۔ جہاں ملا عمر نے چند سال میں امن قائم کر کے دکھایا۔ منشیات کو قابو کیا یہاں تک کہ اسلحہ کی انفرادی موجودگی پر بھی ایک حد لگائی اور اس بات کو منوایا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افغانستان کے اکثر صوبوں میں طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اگرچہ افغان سیکورٹی کے درمیان جنگ جاری ہے۔ اگرچہ افغان سیکورٹی فورسز کی صورت حال یہ ہے کہ کبھی وہ اپنی ہی افواج پر بمباری کر جاتی ہے۔
دو دہائی تک جاری رہنے والی اس جنگ میں افغانستان کے ڈھائی لاکھ شہریوں کو قتل کیا اور معذور بنایا گیا بائیس کھرب اور 60 ارب روپے کے اخراجات سے لڑی جانے والی جنگ میں امریکا نے انسانیت کے خلاف کیسے کیسے جرائم کیے۔ یہ ایک انتہائی ہولناک داستان ہے جو شاید مکمل طور پر کبھی منظرعام پر نہ آسکے گی۔ اس وقت ایک طرف تو افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ دوسری طرف افغان حکومت کے بارے میں امریکا کی افواج کے سربراہ کہتے ہیں کہ امریکی فوج کے بعد افغان حکومت کو برے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یعنی ہماری بلا اب تمہارے سر پڑ سکتی ہے۔ لیکن اچھا یہ ہے کہ طالبان نے افغان باشندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد غیر ملکیوں کے لیے کام کرنے والے افغان اپنے ملک میں محفوظ رہیں گے۔ یہ اعلان نہایت مناسب ہے اور مناسب وقت پر دیا گیا ہے۔ افغان حکومت کو بھی اپنے بہتر مستقبل کے لیے طالبان سے بات چیت کرنا چاہیے۔