عمرانی معاہدہ اور عمران خان

344

اسلام آباد میں صحافیوں کا اپنی ہی ملک کے حساس ادارے کے خلاف تلخ بیانات کا سلسلہ انتہائی افسوسناک ہے اگر کسی صحافی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو انصاف ضرور ہونا چاہیے اور ساتھ ہی اصل حقائق بھی منظر عام پر آنے چاہئیں۔ صحافیوں کا مخصوص گروپ مسلسل حساس ادارے کے خلاف بات کرتا چلا آرہا ہے۔ اس پورے کھیل میں سیاسی مافیا اور غیر ملکی ہاتھ برابر کے شریک ہیں۔ پاکستان مخالف قوتیں ہر وقت اس کھوج میں لگی رہتی ہیں کہ کس طرح پاکستان میں سیاسی طور پر غیر مستحکم صورت پیدا کی جائے اور پھر حکومتی اداروں کے مابین محاذ آرائی پیدا کرکے پاکستان میں سیاسی اور معاشی طور پر غیر یقینی کی کیفیت برقرار رہے۔ اس پورے ایجنڈے میں داخلی محاذ پر چند خفیہ ہاتھ سرگرم ہیں۔ پاکستان مخالف قوتیں اس صورت حال سے پوری طرح فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ مغربی میڈیا بھی پاکستان میں صحافیوں کے خلاف ہونے والے واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان کی تاریک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے کہ جب پاکستان خارجی محاذ پر اپنی کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے اور اندرونی طور پر قومی معیشت بھی قدرے سنبھل رہی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کے لیے دبے لفظوں میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ پاکستان کا اصل مسئلہ اقتصادیات نہیں رہا، اخلاقیات کا اب جنازہ نکل چکا ہے۔ سیاست، صحافت میں شرافت ہے نہ امانت، دیانت۔ یہ سب ایک مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ اس پورے منظرنامے میں قوم، ہجوم بن چکی ہے۔ کرپشن کو اب برائی تصور ہی نہیں کیا جاتا، ماضی کے دونوں حکمران خاندان جن کی لوٹ مار اور بدعنوانیوں کی تاریخ پوری دنیا کے سامنے ہے لیکن پھر بھی پاکستانی سیاست میں ان کا کلیدی کردار ابھی تک موجود ہے۔ ان خاندانوں کی نسلیں اب دوبارہ سیاست میں قدم رکھ چکی ہیں۔ میڈیا ان کو بھرپور کوریج دیتا ہے، اس حقیقت کے باوجود بھی کہ سیاست میں خاندانی اجارہ داری پورے نظام کو برباد کررہی ہے، پاکستانی سیاست کی حالت اس وقت اندھیرے اور اُجالے جیسی ہو کر رہ گئی ہے، یہ گورکھ دھندہ ہے قومی دولت لوٹی گئی، احتساب کا عمل شروع ہوا، اس پورے عمل کا ابھی تک کیا نتیجہ نکلا؟ عدالتیں کرپشن کے ثبوت نہ ہونے کی بنا پر برابر ریلیف فراہم کرتی چلی آرہی ہیں، قومی ادارے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ان حالات میں کہا یہ جارہا ہے کہ اب سیاست اور معیشت میں بہتری لانے کی غرض سے ایک نئے ’’عمرانی معاہدے‘‘ کی ضرورت ہے۔
یقینا اب ’’عمرانی معاہدہ‘‘ ہونا چاہیے، اس معاہدے کے خدوخال بھی طے ہوجانے چاہئیں یعنی آئندہ ملکی نظام کس طرح چلے گا، موجودہ نظام میں پائی جانے والی خامیاں کس طرح دور کی جائیں گی، کرپشن اور خاندانی اجارہ داریوں کا خاتمہ کس طرح ممکن ہوگا۔ عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی غرض سے کیا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ بیوروکریسی میں کیا اصلاحات لائی جائیں گی اور پھر انتخابی اصلاحات کس طرح لائی جائیں گی۔ ٹیکس کی وصولی کو کس طرح یقینی بنایا جائے گا۔ یہ وہ عوامل ہیں جو ہنگامی بنیادوں پر ’’عمرانی معاہدے‘‘ میں شامل کرکے نیا نظام وضع کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ان
نکات کو بھی اس ’’عمرانی معاہدے‘‘ کی رُو کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے۔ جن ہاتھوں نے ماضی میں قومی خزانہ لوٹا ہے وہ کسی طور پر بھی اب پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتے ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے اور لوٹی ہوئی قومی دولت ہر حال میں واپس لینی چاہیے۔ یہ تمام نکات اس ’’عمرانی معاہدے‘‘ میں شامل کرکے قوانین میں بھی کسی ترمیم کی ضرورت ہو تو کی جاسکتی ہے۔ این آر او کا اب ہر سطح پر خاتہ ہونا چاہیے، حکومتی کیمپ اور اپوزیشن دونوں جانب جو کوئی بھی کسی بدعنوانی اور مالی کرپشن کا حصہ بنا ہے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اب رہا مسئلہ یہ کہ عمران خان بطور وزیراعظم اس وقت ’’عمرانی معاہدہ‘‘ کرتے ہیں تو کیا اس معاہدے کی مشاورت اور اس پر دستخط کرنے کی غرض سے کیا میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ دعوت دے سکتے ہیں؟ کسی طور پر بھی ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کو ’’عمرانی معاہدے‘‘ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ سیاسی جماعتوں میں ان دو خاندانوں کے علاوہ تجربہ کار سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں کی کھیپ بھی موجود ہے جو کبھی بھی کسی مالی کرپشن یا بدعنوانیوں کا حصہ نہیں رہے ہیں۔ یہ معاہدہ ماضی کی طرح نہ تو میثاق جمہوریت اور نہ ہی مفاہمتی معاہدے ہو بلکہ یہ معاہدہ اسی طرز کا ہو کہ جو ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے آئین کی تیاری کے لیے ملک کے تمام اہم سیاستدانوں کے ساتھ مل کر متفقہ طور پر مشاورت کے بعد تشکیل دیا تھا۔
پاکستان اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ خطے میں صورت حال بدل رہی ہے۔ بین الاقوامی طاقتیں ایک نئے کھیل کا آغاز کررہی ہیں۔ ان حالات میں پاکستان داخلی اور خارجی محاذ پر مستحکم پوزیشن پر ہونا چاہیے اور پھر عسکری طور پر پاکستان مضبوط اور محفوظ ہاتھوں میں بھی ہو، پاکستان کے اندر اور بیرون ملک چند عناصر اپنے سیاسی مفادات کے لیے بے پناہ سرمایہ مافیائوں میں تقسیم کرچکے ہیں جس کا مقصد پاکستان کے قومی اداروں اور افواج پاکستان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرنا ہے جس سے ملک میں افراتفری اور غیر یقینی کی سورت حال بھی پیدا کرنا ہے اور کرپشن کے مقدمات سے توجہ ہٹانا ہے۔ عمران خان جن حالات میں حکومت چلا رہے ہیں یہ حالات انتہائی مشکل میں ملک میں مافیائوں نے اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، تعمیراتی شعبہ اور دیگر ترقیاتی شعبوں میں مافیائوں کا وجود برقرار ہے جو حکومت کی کارکردگی پر اثر انداز ہورہا ہے۔ اسی بنا پر بدعنوانی اور کرپشن کی داستانیں حکومتی وزرا کو بھی بے نقاب کررہی ہیں۔ اندرون سندھ ڈاکو گردی عام ہے، ڈاکو راج سیاسی پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس نیٹ ورک کو توڑنے کی غرض سے خاندانی سیاست اب ختم ہونی چاہیے۔ لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ ان ہی کی پیداوار ہیں۔ بیورو کریسی خاص طور پر پنجاب میں میاں برادران ہی کے گن گا رہی ہے، کیوں کہ افسران کو میرٹ سے ہٹ کر ترقیاں دی گئیں ان ہی کے ذریعے کرپشن کروائی گئی اور کرپشن کے تمام ریکارڈ بھی غائب کروادیے گئے۔ اب یہ ہی افسران ماضی کے حکمرانوں کا دم چھلہ بن کر موجودہ حکومت کو ناکام بنانے میں خفیہ طور پر سازشیں کررہے ہیں ان تمام کے ڈانڈے لندن میں جاملتے ہیں اور پھر وہیں سے ہدایات بھی جاری ہوئی میں منظم نیٹ ورک اسحاق ڈار کی سربراہی میں لندن میں اپنا کام کر رہا ہے۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے۔ میڈیا کے لوگ بھی خوب فیض یاب ہورہے ہیں۔ ان تمام حالات میں عمران خان کو قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر ’’عمرانی معاہدہ‘‘ کرنے کی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔