بلادِ وطن کی ’’مطلقہ‘‘

307

کراچی، پاکستان کا عروس البلاد یا شہروں کی دلہن کہلاتا ہے یعنی کراچی کے سوا جتنے بھی بڑے چھوٹے شہر ہیں وہ دولہا ہیں اور کراچی دلہن۔ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے، یہ تو سماجی ماہرین اور اسے بلاد کی عروس قرار دینے والے ہی جانیں تاہم یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ کچرے کے ڈھیروں نے اس شہر کو ’’بلادِ وطن کی مطلقہ‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے۔
کراچی کو ’’دلہن‘‘ کا خطاب دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں منوڑہ سے لے کر لنڈی کوتل تک کے ہر شہر، گائوں، گوٹھ ، قصبے، دیہہ، ضلع، تحصیل، محلے اور گلی کا رہائشی موجود ہے۔ اسی لیے اس کی کل آبادی تین کروڑ سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ اسی لیے کراچی کو ’’منی پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے مگر افسوس کہ بعض عاقبت نا اندیشوں نے جا بجا کچرے کے ڈھیرلگا کر کراچی کے حْسن کو زبردستی گہنا دیا ہے۔
ماہرینِ سماجیات کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت کا ’’حْسن‘‘ یہی ہے کہ اس میں عوام کو آزادی میسر ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ نظام پہلی دنیا کے ممالک میں رائج کیا گیا تھا جہاں عوام کی غالب اکثریت تعلیم یافتہ یعنی پڑھی لکھی یعنی خواندہ ہوتی ہے۔ ان ممالک کی اقوام خود تو ’’بے باک آزادی‘‘ کی پروردہ ہوتی ہیں تاہم دوسری اقوام کو ’’غلام‘‘ بنانے کی اہلیت، صلاحیت، قابلیت اور استعداد ان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ ان آزاد اقوام کو اگر جا بجا حقیقی، غیر مجازی اور سچی مْچی آزادی فراہم کر دی جائے تو وہ اسے ہرگز ’’دل پر نہیں لیتیں‘‘ چنانچہ ’’آپے کے اندر‘‘ رہ کر ہی اس کے ثمرات سمیٹ لیتی ہیں۔ اس کے بر خلاف تیسری دنیا کی اقوام جنہیں نہ صرف غلام بنایا جاتا ہے بلکہ وہ خود دوسروں کی غلام بن کر اِتراتی ہیں۔ ان کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ، غیر پڑھی لکھی اور ناخواندہ ہوتی ہے ، وہ آزادی نام کی کسی شے سے آشنا نہیں ہوتے پھر جب انہیں جمہوریت کے نام پر آزادی کا سبق رٹایا جاتا ہے تو وہ اس ’’نام نہاد، غیر حقیقی، مجازی اور جھوٹی مْوٹی‘‘ آزادی کو ’’دل پر‘‘ لے لیتے ہیں، ’’آپے سے باہر‘‘ ہو جاتے ہیں پھر ویگنوں اور ریل گاڑیوں کی چھتوں پرچڑھ کر سفر کرنے کا ’’شوق‘‘ پورا کرتے ہیں۔ جمہوریت کے دیسی علمبردار انہیں احتجاج پر اْکساتے ہیں اور بپھرنے کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں چنانچہ وہ آزادانہ طور پر نجی املاک کو نیست و نابود کرکے اپنی بھڑاس نکالتے ہیں۔ ٹریفک سگنل، بجلی کے بلب، ٹیوب لائٹس، قمقمے، جنگلے، پھول پھلواریاں، خوبصورت ہورڈنگز وغیرہ توڑ تاڑ کر، انہیں زمیں بوس کر کے اپنی جوانی کی ’’بدمستی‘‘ کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ جمہوریت کی آڑ میں بے لگام آزادی سے سرشار اور بس یا ویگن میں سوار ہو کر ببانگِ دہل گٹکا خوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ گٹکے میں موجود الم غلم کو 55منٹ تک منہ میں لعاب کے ساتھ گھولتے ہیں اور پھر اچانک گاڑی کی کھڑکی سے سر باہر نکال کر اس ’’انسانی اور غیر انسانی مرکبات کے محلول‘‘ کو جوفِ دہن کی قید سے ’’آزاد‘‘ کر دیتے ہیں جو دور تک سڑک پر مترشح ہوجاتا ہے۔ گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس ترشح کے باعث سڑک پر سے گزرنے والے موٹر سائیکل، سائیکل، کار یا گدھا گاڑی سوار اور یا فٹ پاتھ پر رواں دواں پا پیادہ ہستی کا وجود ’’رنگین‘‘ ہوجاتا ہے۔
تیسری دنیا کے اثر ملکوں میں لوگ دوڑتی گاڑیوں میں یا پیدل سفر کے دوران مختلف اشیا کھاتے پیتے ہیں اور انتہائی دھڑلے سے تمام کچرا اہم شاہراہوں، سڑکوں، محلوں، گلیوں اور دوسروں کے گھروں کے سامنے پھینک دیتے ہیں اور اگر وہ شخص کہ جس کے گھر کے دروازے پر کچرا پھینکا گیا ہے، شکایت کر بیٹھے تو اسے بے دھڑک 5ویں یا چھٹی یعنی ’’پرائمری یا مڈل‘‘ کا دودھ یاد دلا دیاجاتا ہے اور باور کرادیا جاتا ہے کہ اگر شکایت دوبارہ کی تو ’’بولتی بند‘‘ کر دی جائے گی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جا بجا مصروف سڑکوں کے کناروں پر بلا روک ٹوک کچرا پھینکا جاتا ہے۔ اسے روزانہ اٹھاکر لے جانا اور ٹھکانے لگانا بلدیہ کے مہتروں اور ان کی مسز یعنی اہلیائیں یعنی بیگمات کا کام ہوتا ہے مگر یہ میاں بیوی ’’بھوت‘‘ یعنی ’’گوسٹ‘‘ ملازمین میں شامل ہوتے ہیں چنانچہ وہ کوئی کام کرنا اپنی شان اور انا کے خلاف سمجھتے ہیں البتہ تنخواہیں ضرور لیتے ہیں۔
جمہوریت کے بل پر میسر آنے والی اس ’’آزادی‘‘ کا تمام تر مآل عوام کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ کچرا پہلے جمع ہوتا ہے، پھر ڈھیر لگتا ہے، پھر بارش سے پھیلتا ہے اور پھیلتا ہی چلا جاتا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ کچرا جو ابتدائی طور پر سڑک کے مقابلے میں ’’اقلیت‘‘ میں ہوتا تھا، اب ’’اکثریت‘‘ میں آجاتا ہے چنانچہ نوبت یہ آ جاتی ہے کہ پہلے پہل سڑک کے کنارے کچرا دکھائی دیتا تھا، اب کچرے کے کنارے سڑک دکھائی دیتی ہے۔ ہمیں یقین ِ کامل ہے کہ پاپوش نگر میں خلافت چورنگی کے گرد اور بڑے میدان پر پٹرول پمپ کے ساتھ کچرا آج بھی اسی طمطراق کے ساتھ موجود ہوگا جس طرح دوسال قبل تھا۔ یقین نہ آئے تو آپ ہمارے بیان کردہ مقامات سے گزر کر دیکھ لیں، اس غلیظ کچرے سے فضائوں میں بکھرنے والا ’’دم گھونٹ تعفن‘‘ کئی فرلانگ دور تک آپ کو اپنی’’ قوتِ شامہ‘‘ یعنی سونگھنے کی حِس سے کھلواڑ کرتا محسوس ہوگا۔
’’گند‘‘ صاف کرنے کے لیے ’’جھاڑو پھیرنے‘‘ کی ذمے داری ویسے توکئی برس سے بعض سیاسی ہستیوں نے اپنے سر لے رکھی ہے اور وہ گلی محلوں کے بجائے آنے بہانے، قومی خزانے پر جھاڑو پھیرنے کی تاک میں رہتے ہیں۔ اس نازک مرحلے پر یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ تصویر کا ایک رْخ ہے جبکہ ہم اس امر کے قائل ہیں کہ تصویرکے ہمیشہ دونوں رْخ دیکھنے چاہئیں۔ ذرا سوچیے کہ اگر شہرکراچی کی آبادی 200لاکھ ہے تو اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر 100لاکھ یعنی ایک کروڑ شہری، 10میٹر رقبے پر جھاڑو پھیرنا اپنے اوپر لازم کر لیں تو چند منٹوں میں کراچی شہر کے 10کروڑ میٹر رقبے کی صفائی ہوجائے گی۔ اس ستھرائی کے اثرات یہ ہوں گے کہ عوام متحد ہو کرمعاشرے میں دیگر قسم کی صفائیوں کی جانب بھی توجہ دینے لگیں گے۔ کچھ ہی عرصے میں ایسا صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ سراٹھانا شروع کر دے گا جہاں کسی ’’جھاڑو پھیرو کو جھاڑو پھیرنے‘‘ کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔ انجام کار وہ وقت بھی آجائے گا جب ہمیں غلام بنانے والی اقوام کے افراد ہمارے ملک کا ویزا لینے کے لیے کھڑکی پر طویل قطار لگائے کھڑے ہوں گے اور کھڑکی پر ’’Closed‘‘ کی تختی جھول رہی ہوگی اور اس کے نیچے لکھا ہوگا کہ:
’’حصول روزگار کے لیے پاکستان جانے کے خواہش مندوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کے ملک کے لیے ہمارے ورک ویزوں کا کوٹا ختم ہو چکا ہے، صرف خصوصی اہمیت کی درخواستیں وصول کرنے کے لیے کسی بھی وقت محدود وقت کے لیے کھڑکی کھولی جائے گی، قطار میں کھڑے ہو کر تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظار کیجیے، اگر یہ ممکن نہیں تو گھر واپسی کی راہ اختیار کیجیے۔ ہم زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں تاہم دیدہ و دل فرشِ راہ ہیں‘‘۔