’’طوئے بٹھانا‘‘

369

ہمارے ایک دوست ہیں جن کا نام ہے ’’عقلدار‘‘، ریختہ کے عاشق ہیں اس لیے شادی بھی انہوں نے ریختہ دانوں ہی میں کی۔ عقلدار چھٹیاں گزار کر لوٹے تو ملنے چلے آئے اور نشست پر براجمان ہوتے ہی گفت یوں شروع کی کہ: ’’چشم ِ خرد سے دیکھا جائے تو یہ بات بجا معلوم ہوتی ہے کہ ’’بھانجا‘‘ ہو یا ’’بھانجی‘‘ ان کی صرف 2اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک خواہرانہ اولاد یعنی بہن کے بچے ہوتے ہیں جنہیں بھانجا یا بھانجی کہا جاتا ہے اور دوسری ’’سالیانہ اولاد‘‘ یعنی بیوی کی بہن کے بچے ہوتے ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں۔ فرق دونوں کا یہ ہے کہ مرد اپنی بہن کے بچوں یعنی خواہرانہ اولاد کا ’’ماموں‘‘ ہوتا ہے جبکہ سالیانہ اولاد کا ’’خالو‘‘ کہلاتا ہے۔ اس تمہید کی ضرورت یہاں کیوں پیش آئی، اس کا مقصد کیا تھا یہ تو ہمیں خود بھی معلوم نہیں البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ ہم جس بھانجی کا ذکر کرنے والے ہیں وہ ہماری خواہر کی نہیں بلکہ نسبتی خواہر یعنی سالی کی صاحبزادی ہے۔
ہم آپ کو بتا دیں کہ ہماری سالی صاحبہ شاعرہ تو ہیں مگر بڑی بات یہ ہے کہ ’’بذاتِ خود‘‘ ہیں یعنی وہ اشعار کسی سے لکھواتی نہیں بلکہ خود شعر کہتی ہیں۔ جس طرح ایک چاول سے پوری دیگ کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے، اسی طرح ہم آپ کے سامنے اپنی نسبتی خواہر کا چند روز پرانا کلام پیش کر رہے ہیں جو موصوفہ کی شاعری کے اعلیٰ معیارکا منہ بولتا ثبوت ہے، ملاحظہ ہو:
’’آپ جدے سے آج آئے ہیں
ہے شنیدن کہ گفٹ لائے ہیں
آپ سب آئیے مرے گھر پر
آج میں نے پکائے پائے ہیں‘‘
ہوا یوں کہ ہماری اس شاعرہ سالی کی شادی بھی ایسے شاعر سے ہوگئی جو نہ صرف خود شعر کہتے تھے بلکہ دوسریوں کو بھی لکھ کر دیتے اور انہیں شاعرہ کہلوانے کا موقع فراہم کرتے تھے۔ شاعرہ کی شاعر سے شادی ہوئی تو یوں لگا جیسے سونے پر سہاگہ۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔ اس نے تو کمال ہی کر دیا، سال بھر کی ہوئی تو نہایت ثقیل قسم کی اردو بولنی شروع کر دی۔ باپ کو ’’والدگرامی‘‘ اور ماں کو ’’امی حضور‘‘ کہہ کر پکارتی تھی۔ وہ ’’بحر‘‘ میں یعنی ’’باوزن‘‘ انداز میں روتی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی شاعرہ ترنم میں غزل پیش کر رہی ہے۔ اسے بھوک لگتی تو ماں سے یہ کہنے کے بجائے کہ ’’امی! بھوک لگی ہے، دودو دیدیں‘‘ وہ کہتی کہ ’’امی حضور! خلوئے معدہ کی کیفیت ہے، اشتہائے بطنی سے طبع نڈھال اور پژمردنی کا شکار ہے، شیر ِ شیریں کا سوال ہے‘‘۔ ہمیں حیرت اس وقت بھی ہوئی تھی جب ہم چھٹی پر وطن گئے ہوئے تھے اور ہماری بھانجی جو ٹاٹ اسکول کی پکی جماعت میں پڑھ رہی تھی، اسکول سے آئی تو باپ سے کہنے لگی کہ ’’والد گرامی! آج اتالیقِ آشفتہ نے ہماری ’’سرکوبی‘‘ کی، کل ان سے استفسار ضرور کیجیے گا کہ آخر اس اذیت رسانی کا سبب کیا تھا؟‘‘
ہم اپنی اس ’’سالیانہ اولاد‘‘ سے خاصے خائف رہنے لگے تھے کیونکہ اخباری صنعت سے وابستگی کے باعث اردو سے، زیادہ نہ سہی، کچھ کچھ علاقہ تو ہمارا بھی تھا۔ ہمیں خدشہ تھا کہ یہ بھانجی کسی دن کوئی ادبی کارنامہ نہ کر بیٹھے۔ کئی برس تو یونہی گزر گئے۔ ہمارا خدشہ خدشہ ہی رہا مگر اس مرتبہ جب ہم چھٹی پر وطن گئے تو بھانجی نے ہمیں اتنا حیران کیا کہ ہمارا منہ پھٹا کا پھٹا رہ گیا۔ کہنے لگی کہ:
’’میرے والد گرامی اور امی حضور کو شعر و شاعری ہی سے فرصت نہیں۔ میں ان کو جب بھی دیکھتی ہوں، وہ ’’فعلن فعلن فعلن فاع‘‘ کی دھن میں مگن نظر آتے ہیں۔ دونوں کی توجہ کا مرکز سخن گوئی ہے۔ دونوں ہی منظوم کلام کہنے کے درپے رہتے ہیں، ارے بابا! نثر بھی دنیائے ادب کا وسیع خطہ ہے، منثور کلام بھی اتنا ہی اہم ہو سکتا ہے جتنا کہ منظوم، مگرکیا کریں، وہ سمجھتے ہیں کہ جس ’’تخیل‘‘ کی ’’تنظیم‘‘ نہ ہو، وہ شاہکار کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ بہر حال، یہ خیال تو میرے والدین کا ہے تاہم میں نے نثر میں طبع آزمائی کی ہے۔ میں آپ ہی سے ایک سوال پوچھتی ہوں کہ جس طرح ہم اپنی کیفیات کو منظوم قالب میں ڈھال کر ’’تازہ اشعار‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں، اسی طرح ہم نئے محاورے گھڑ کر انہیں ’’اختراعِ تازہ‘‘ کے طور پر عام کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ استفسار میں نے اپنے آپ سے بھی کیا اور پھر خود ہی ایک محاورہ گھڑ لیا جو ہمارے وطن عزیز کے موجودہ ماحول کے لحاظ سے انتہائی مناسب ہے۔ محاورہ ہے ’’اپنی طوئے بٹھانا‘‘۔ یہ ایسا محاورہ ہے جو ملک کے اکثر سیاستدانوں، ٹاک شوز یعنی ’’اظہارِ گفت‘‘ میں شرکت کرنے والے اکثر اینکر اور اینکرنیوں یعنی ’’لنگر اور لنگرنیوں‘‘ پر صد فی صد منطبق ہوتا ہے کیونکہ اس سے مراد ہے اپنی بات، اپنا علم، اپنا حکم، اپنا تصور، اپنی سمجھ بوجھ، اپنا خیال اور اپنی سوچ دوسروں پر تھوپنا۔ اس کی مثال دیکھیے کہ کسی سیاستداں کے سامنے عوام سے کہا جائے کہ’’ یہاں مت جائو‘‘ مگر سیاستداں ’’مت‘‘ میں ’’ط‘‘ لگا کر کہہ دے کہ ’’یہاں مٹ جائو‘‘، یوں نہ صرف معانی بلکہ سارا منظر نامہ ہی بدل جائے گا۔ اسی طرح کسی نے کہا کہ آبی ذخائر ’’جب تک سارے کے سارے نہ بھر جائیں، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے‘‘۔ اس پر بھی ایک کارکن نے اپنی ’’ط‘‘ بٹھائی اور کہنے لگا کہ ’’جب تک سارے کے سارے نہ بھڑ جائیں، ہم چین سے نہیں بیٹھیںگے‘‘۔ ایک استاد نے شاگرد سے کہا کہ ’’چل یہاں سے دور جا‘‘، شاگرد نے اس پر اپنی ’’طوئے‘‘ بٹھائی اور بھاگ کر گھر پہنچا اور ماں سے کہا کہ استاد نے کہا تھا کہ ’’چل یہاں سے دوڑ جا‘‘ اس لیے میں گھر آگیا۔
ایک خاتون کو روٹی پکانا بالکل پسند نہیں تھا، وہ چاول پکاکر رکھ دیتی تھی جبکہ شوہر کوگرما گرم تازہ روٹی پسند تھی۔ ایک روز اس کے شوہر نے کہا کہ میں گھر میں آتا ہوں تو تمہارا موڈ ہی خراب ہوجاتا ہے۔ تم خوش رہا کرو، ’’مجھے روتی اچھی نہیں لگتی‘‘۔ خاتون نے موقع غنیمت جانا اور فوراً ہی شوہر کی بات پر اپنی ’’طوئے‘‘بٹھا دی۔ شام کو شوہر گھر آیا تو اسے کھانے کے لیے چاول دیے۔ اس نے غصے میں کہا کہ تم نے روٹی کیوں نہیں پکائی؟ بیوی نے جواب دیا کل آپ نے ہی تو کہا تھا کہ ’’مجھے روٹی اچھی نہیں لگتی‘‘۔ یہ سن کر شوہر کی بھک ہی اْڑ گئی۔ آج ہمارے ملک بھر میں یہی کچھ ہو رہا ہے، بااختیار صاحبان، بے اختیاروں پر، امیر غریبوں پر، افسران ماتحتوں پر، سیاستداں کارکنوں پر، میاں بیویوں پر، والدین اولاد پر، اساتذہ طالب علموں پر، پولیس چوروں پر، حکمراں محکوموں پر اپنی ’’طوئے‘‘ بٹھانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ یقین جانئے، ہمارے وطن میں حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی جس دن ’’ط‘‘ اٹھانے کا محاورہ رائج ہو جائے گا‘‘۔
بھانجی کی بات سننے کے بعد سے ہمارے دل میں خواہش گدگدانے لگی کہ کاش کوئی ایسا رہنما سامنے آجائے جو 98فی صد عوام کو اپنی ’’طوئے‘‘ بٹھانے اور 2فی صد طبقے کی ’’طوئے‘‘ اٹھانے کا سلیقہ سکھا دے۔