امریکی غلام مسلم حکمراں اسرائیلی مظالم پر مذمت سے آگے جاتے نظر نہیں آرہے

706

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) موجودہ صدی میں مسئلہ فلسطین عالمی سیاست اور انسانیت کا ایک ایسا موضوع اور گمبھیر مسئلہ ہے جو عالمی امن کے منہ پر ایک طمانچہ ہے‘ مسئلہ فلسطین نے بددیانتی، سازشوں، جوڑ توڑ اور طاقت کی کوکھ سے جنم لیا ہے‘ یہ حل بھی طاقت سے ہی ہوگا‘ امریکی غلامی نے اسرائیل کی محبت میں مبتلا کیا ہوا ہے‘ ماضی کے حالات تو یہی کہہ رہے ہیں کہ مسلم حکمراں مذمتی قرار داد سے آگے نہیں جائیں گے‘ عرب امارات، بحرین اور اومان سمیت کئی عرب ممالک نے ریاست فلسطین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے خلاف کبھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا بلکہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیا‘ مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان حکومتیں زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھیں‘ پاکستان فلسطین فنڈ قائم کرے اور غزہ کا محاصرہ توڑنے میں امدادی قافلہ روانہ کرے۔ ان خیالات کا اظہار رکن سندھ اسمبلی اور جماعت اسلامی ضلع جنوبی کے امیر سید عبدالرشید، صدر پی ٹی آئی کراچی و رکن سندھ اسمبلی خرم شیر زمان، فلسطین فائونڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم، پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری اطلاعات سندھ خواجہ طارق نذیراور جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا مسلم حکمراں مسئلہ فلسطین پر زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھیں گے؟سید عبدالرشید کا کہنا تھا کہ مسلم حکمران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام اور اپنے اقتدار کی محبت میں مستقل بزدلی اور بے شرمی کی علامت بنے ہوئے ہیں‘ پاکستان کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کی فکری اساس کے مطابق کھل کر بولڈ اسٹیپ لینا چاہیے‘ قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا تھا‘ افسوس ہے کہ ترکی کے علاوہ کسی نے جرأت نہیں کی کہ وہ اس مسئلے پر حقیقی آواز بلند کرے‘ اگر مسلم حکمران کوئی اقدام نہیں لیتے تو اپنے عوام کے احتساب سے جان نہیں چھڑا سکیں گے‘ امریکی غلامی نے اسرائیل کی محبت میں مبتلا کیا ہوا ہے‘ ماضی کے حالات تو یہی کہہ رہے ہیں کہ مسلم حکمراں مذمتی قرار داد سے آگے نہیں جائیں گے۔ خرم شیر زمان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم کے خلاف جتنے مذمتی الفاظ استعمال کیے جائیں‘ وہ کم ہیں‘ نہتے فلسطینیوں کے خون سے قبلہ اول لہو لہو کیا گیا‘ اسرائیل فوج کی کارروائیوں کے خلاف ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ بھرپور یک جہتی اور حمایت کے لیے آگے آئے‘ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کا بے رحمانہ استعمال، عالمی انسانی و بنیادی حقوق کے قوانین اور اصولوں کی سنگین اور کھلی خلاف ورزی ہے‘ تحریک انصاف کی حکومت فلسطینی مسلمانوں کو اکیلا نہیں چھوڑے گی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ڈاکٹر صابر ابو مریم کا کہنا تھا کہ مسلم حکمراںخاص طور پر وہ عرب ممالک جو کہ فلسطین کے اردگرد موجود ہیں‘ انہوں نے کبھی فلسطین کی آزادی کے لیے آواز نہیں اٹھائی‘خاص طور پر عرب امارات، بحرین اور اومان سمیت کئی عرب ممالک نے ریاست فلسطین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کے خلاف کبھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا بلکہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کر کے اس کے ساتھ تعلقات میں اضافہ کیا‘ اس تمام صورتحال کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زبانی جمع خرچ بھی کافی ہے‘ جیسے پاکستان فلسطین سے یکجہتی اور حمایت کر رہا ہے مگر اب ہمیں اس سے بڑھ کر سوچنا پڑے گا کیونکہ پاکستان ایک اسلامی اور نظریاتی ملک ہے‘ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ فلسطین کے حوالے سے ایک فنڈ قائم کرے اور اس میں جمع ہونے والی تمام رقم فلسطینی عوام اور اسرائیل کے خلاف جہاد کرنے والی تنظیم حماس کو دی جائے‘ وزیر اعظم عمران خان کو سربراہ حماس اسماعیل ہنیہ کو ٹیلیفون کر کے ہر طرح کی حمایت کا یقین لانا چاہیے جوکہ اب تک نہیں کیا گیا‘ یہ قابل مذمت ہے‘ اس طرح اسلامی ممالک جن کے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات ہیں وہ ان کو منقطع کرکے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں۔ ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا کہ موجودہ صدی میں مسئلہ فلسطین عالمی سیاست اور انسانیت کا ایک ایسا موضوع اور گمبھیر مسئلہ ہے جو امن عالم کے منہ پر ایک طمانچہ ہے‘ مسئلہ فلسطین نے بد دیانتی، سازشوں، جوڑ توڑ اور طاقت کی کوکھ سے جنم لیا ہے‘ یہ حل بھی طاقت سے ہی ہوگا‘ مسئلہ فلسطین کا اپنا ایک مذہبی پہلو بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ علاقائی،جغرافیائی، سیاسی، معاشی، نسلی اور سماجی پہلو بھی رکھتاہے‘ یہ نہ صرف انسانی حقوق کا ایک اہم مسئلہ ہے بلکہ سماجی انصاف اور شخصی آزادی کا بھی معاملہ ہے‘ امن آزادی اور مساوات کے علمبرداروں تک ان حقائق کو اجاگر کرنے اور ان کو احساس دلانے کی اشد ضرورت ہے‘ یہ ہماری کمزوری اور نا اہلی ہے کہ ہم نے بحیثیت امت مسلمہ کبھی بھی متحد ہوکر مسئلہ فلسطین کے لیے ایک آواز بلند نہیں کی‘ نہ ہی او آئی سی نے امت کا نمائندہ بن کر اسے عالمی سطح پر اُجاگر کرنے اور عالمی اداروں جیسے اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دیگر عالمی فورم پر اسے اٹھانے کی کوشش کی‘ کئی مسلم ممالک پاکستان، ایران اور ترکی نے اس سلسلے میں انفرادی طور پر بعض موثر اقدامات بھی کیے ہیں‘ ان ہی کی بدولت آج فلسطین مزاحمت جاری رکھنے کے قابل ہوا ہے‘ اسی طرح فلسطینی عوام کی بحالی کے لیے تعاون اور اقدامات کے سلسلے میں بھی خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں اور دام درہم قدم سخن‘ ان کی دل جوئی اور مدد کی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ بہت جلد مسئلہ فلسطین، فلسطین کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہو تاکہ دنیا میں’’ جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کے تحت امن قائم رہ سکے‘ مسئلہ فلسطین کی حمایت کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان حکومتیں زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھیں ‘پاکستان فلسطین فنڈ قائم کرے اور غزہ کا محاصرہ توڑنے میں امدادی قافلہ روانہ کرے۔ خواجہ طارق نذیر کا کہنا تھا کہ مسلم حکمرانوں میں وہ اتحاد اور اتفاق جو فلسطین کا مسئلہ تقاضا کرتا ہے نظر نہیں آتا‘مسلم حکمران اس وقت بھی مختلف بلاکس میں منقسم ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مصر جو عسکری لحاظ سے اسرائیل پر دبائو ڈال سکتا تھا وہاں ایسی حکومت ہے جو خود امریکا کی جانب دیکھتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ امریکا کی وجہ سے قائم ہے چونکہ اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ امریکا ہے اور اسے یورپی یونین کی حمایت بھی حاصل ہے اس وجہ سے مشرق وسطیٰ کے اکثر ممالک فلسطین کی بھرپور حمایت صرف زبانی جمع خرچ کی حد تک ہی محدود رکھیں گے۔