افغان عوام کا کیا قصور؟

371

افغانستان میں بچیوں کے اسکولوں پر کار بم حملہ کیا گیا، معصوم بچیاں اسکول سے چھٹی کے بعد باہر نکل رہی تھیں، کیا پتا تھا کہ گھر پہنچنا نصیب نہ ہوگا۔ 60 کے قریب تو فوراً شہید ہوگئیں اور ڈیڑھ سو کے قریب زخمی ہوئیں، جن میں سے بہت سی بچیوں کی حالت نازک ہے۔ دلوں کو دُکھ سے چور کردینے والا یہ حملہ ماں باپ پر کیسا قیامت کی طرح گزرا ہوگا یہ تصور کرنا مشکل ہے۔ یہ واقعہ اتنا دلخراش ہے کہ ہر آنکھ اشک بار ہے۔ بھلا معصوم بچیوں سے کسی کی کیا دشمنی تھی۔ سچ یہ ہے کہ حملہ آوروں کی یہ دشمنی تو افغان عوام سے تھی کہ جنگ و جدل کا الائو بھڑکانا مقصود تھا۔ امریکا جارہا ہے لیکن پیچھے آپس میں اُلجھے رہیں، ہمیں مزید زچ کرنے کی کوششیں نہ کریں اسی لیے وہ علاقہ چنا جو شیعہ اکثریتی علاقہ تھا اور جہاں ہزارہ اقلیتی طبقہ آباد ہے۔ سنی اور شیعہ آبادی کو لڑانے کی سازش یاد ہے ناں، پاکستان میں کبھی شیعہ مساجد پر حملے اور پھر کبھی سنی مساجد پر حملے۔ حملہ آوروں کا ایک ہی مقصد فرقہ وارانہ تعصب بھڑکانہ آپس میں لڑانا۔ انگریز کا اصول لڑائو اور حکومت کرو۔ اب معاملہ یہ ہے کہ افغان حکومت تو مہمان ہے چند دنوں کی، امریکی لڑاکا طیاروں کے ذریعے انخلا کا فیصلہ کرچکے تا کہ سرعت سے نکلا جاسکے۔ امریکا اور بھارت کی لاڈلی افغان حکومت پر اتنا بھروسا بھی نہ کیا گیا کہ ہتھیار، آلات اور ضروری سازوسامان باقاعدہ ہینڈ اوور کیا جاتا۔ بس نکلنا ہے، ایسے کہ مزید بے عزتی کا کوئی سامان نہ ہونے پائے۔ سو یہ حملہ بھارت کی حرکت ہوسکتی ہے لیکن اشرف غنی حملہ ہوتے ہی بول اُٹھے کہ یہ طالبان کی حرکت ہے جیسے کرنے سے پہلے طالبان نے اشرف غنی کے کان میں بتادیا ہو۔
بہرحال انٹیلی جنس کا ایسا عمدہ انتظام اشرف غنی کے پاس ہونا مشکل ہے کہ اِدھر دھماکا ہوا اور اُدھر ان کے کارندے حملہ آوروں کا کھرا ڈھونڈ نکالیں۔ افغان حکومت کے الزام کے بعد طالبان کے ترجمان نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے افغانستان سے اپنی فوجوں کے مکمل انخلا کا آغاز کردیا ہے، اس کے ساتھ ہی ناٹو افواج نے بھی اپنی واپسی کا اعلان یہ کہہ کر کردیا ہے کہ ہم ساتھ آئے تھے اور ساتھ جائیں گے۔ اس وقت افغان سیکورٹی فورسز واپس جانے والے امریکیوں اور ناٹو فوجی دستوں پر کسی بھی حملے سے نمٹنے کے لیے ہائی الرٹ کی حالت میں ہیں، افسوس کہ اسی دوران بچیوں کے اسکول پر کار بم دھماکے کردیے گئے۔ 72 سالہ اشرف غنی افغانستان کے تیرہویں صدر ہیں۔ انہوں نے 2014ء کے صدارت انتخابات میں عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی۔ لیکن ایران ہمیشہ اشرف غنی کا مخالف رہا۔ یہاں تک کہ اشرف غنی کی تقریب حلف برداری میں بھی ایران نے اپنا سفیر نہیں بھیجا اور دوسری طرف عبداللہ عبداللہ کی متوازی تقریب میں ایران کے سفارت کار شریک ہوئے۔ اس لحاظ سے اشرف غنی کو شیعہ مخالف کیمپ میں سمجھا جاتا ہے۔ بچیوں کے اسکول میں ہونے والے دھماکے شیعہ اکثریتی علاقے میں ہوئے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ افغان حکومت افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا نہیں چاہتی تھی۔ ڈھکے چھپے اور ظاہر ہر طرح افغان حکومت نے امریکی فوج کو روکنے کی کوشش کی۔ طالبان سے مذاکرات سے باز رکھنا چاہا لیکن امریکی کسی طرح ان کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ 2006ء ہی میں امریکا کو اپنی شکست کے آثار نظر آنے لگے تھے اور وقتاً فوقتاً امریکی عہدے دار اس کا اعتراف بھی کرنے لگے تھے۔ دنیا کو تو اس وقت معلوم ہوگیا تھا کہ امریکا اور اس کے 44 ملکوں کی افواج کا اتحاد افغانستان پر قبضے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اب امریکا کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح ذلت آمیز شکست کو چھپایا جائے اور باعزت رخصتی کے لیے راستہ تلاش کیا جائے۔ اس کے لیے طالبان سے مذاکرات کی بے تابی تھی۔ امریکا شروع میں طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر آمادہ کرتا رہا لیکن طالبان براہ راست امریکا سے مذاکرات چاہتے تھے اور امریکا کو طالبان کے مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں۔
بالآخر امریکا افغانستان سے جارہا ہے۔ کیا وہ افغانستان کو ویسا چھوڑ کر جارہا ہے جیسا اس کی آمد کے وقت 2001ء میں تھا یا اس سے بدتر حالت میں افغانستان کو چھوڑ کر جارہا ہے۔ 2001ء میں امریکا طالبان کے شرعی قوانین کے نفاذ کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے رہا تھا اور طالبان کے عرب مہمان اسامہ بن لادن دہشت گرد قرار دے کر فوری امریکا حوالے کرنے کا مطالبہ کررہا تھا۔ لیکن طالبان نے اُس کو مانے سے انکار کیا اور اس لیے امریکا سے ثبوت مانگے۔ امریکا نے ثبوت فراہم کرنے کے بجائے حملہ کردیا اور ہزاروں ٹن بارود اور کیمیائی مواد افغانستان پر پھینکتا رہا۔ بغیر یہ سوچے کہ بے گناہ افغان عوام کا کیا ہوگا؟ معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے مرتے رہے، لیکن امریکا اور اس کے اتحادی اُسی جوش سے جنگ کا الائو بھڑکاتے رہے۔ وہ نہ طالبان کو شکست دے سکے، نہ افغانستان میں امن لاسکے۔ حد تو یہ کہ وہ افیون اور ہیروئن کی پیداوار کو بھی کنٹرول نہ کرسکے جو طالبان نے اپنے دورِ حکومت میں کر دکھائی تھی۔ انہوں نے امن اور انصاف کو بھی نافذ کر دکھایا تھا۔ اسلحے کو بھی کنٹرول کیا تھا لیکن امریکا کے افغانستان میں وارد ہوتے ہی چند سال کے اندر افغان حکومت کے وزیر برائے منشیات اطلاع دیتے ہیں کہ افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 64 فی صد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یعنی امریکا کسی ایک میدان میں بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ اس وقت امریکا بس اتنی کامیابی چاہتا ہے کہ طالبان امریکی افواج کے انخلا کے دوران ان پر حملے نہ کریں۔ امریکی جنرل میکنزی نے ایک ہفتے قبل ہی پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم اپنے فوجیوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے افغانستان سے تیزی اور منصوبہ بندی سے انخلا کریں گے اور میرا طالبان کو یہ ہی کہنا ہے کہ ہم انخلا کے تمام عمل میں اپنے دفاع کے لیے چوکس رہیں گے۔ یعنی سارے مقاصد ایک طرف اور دم دبا کر حفاظت کے ساتھ افغانستان سے بھاگ نکلنا ایک طرف۔ بہرحال اب افغانستان میں طالبان کے اتحاد کا وقت شروع ہوا چاہتا ہے۔