آلودہ پانی کی ہلاکت خیزی اور کووڈ 19

430

اصول تو یہی بتاتا ہے کہ ہر تباہی کا مقابلہ اس کی ہلاکت خیزی کے مطابق کیا جانا چاہیے جس چیز سے جتنی تباہی اور ہلاکت ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اسی اعتبار سے تیاری ہوتی ہے۔ بڑی طاقتیں صرف جنگوں کے معاملے میں اس اصول پر کار بند نہیں رہتیں کیوں کہ اب وہ خود ایک دوسرے سے جنگ نہیں لڑتے بلکہ کسی چھوٹے ملک کو میدان بناتے ہیں وہیں اپنے جدید اسلحہ کا تجربہ کرتے ہیں پرانا اسلحہ ٹھکانے لگاتے ہیں۔ اس اعتبار سے بیماریوں کا معاملہ ہے، بڑی طاقتیں اپنے ملکوں میں پھیلنے والی بیماریوں کو دنیا بھر کے لیے خطرناک قرار دیتی ہیں اور ان سے بچنے کے لیے پوری دنیا کو مجبور بھی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایڈز مغرب کی پیداوار ہے ان ہی کی حرکتوں کی وجہ سے پھیلی اور اسے پوری کوشش کرکے تیسری دنیا تک پہنچایا گیا۔ ان سب باتوں سے قطع نظر ہم صرف اس بات کا جائزہ لیں گے کہ دنیا میں خطرناک اور ہلاکت خیز کیا ہے اور دنیا اس کے مقابلے میں کیا کررہی ہے۔ اگر انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اب تک جس بیماری کو ہلاکت خیزی میں پہلا نمبر دیا جاتا ہے وہ ملیریا ہے۔ اس بیماری سے دنیا میں اب بھی ہر سال لاکھوں انسان مر رہے ہیں بس فرق صرف یہ ہے کہ اس بیماری کو پروپیگنڈے کے طور پر اب استعمال نہیں کیا جاتا۔ اب نئی بیماری نیا ایجنڈا نیا پروپیگنڈا ہے۔ ایک آسٹریلوی ادارے بزنس ان سائڈر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1900 سے 1950 کے درمیان دنیا میں صرف ملیریا سے 10 کروڑ افراد ہلاک ہوئے لیکن اسے عالمی وبا قرار نہیں دیا گیا۔ اسپینشن فلو میں بھی مجموعی طور پر شروع سے آخر تک اتنے لوگ ہلاک نہیں ہوئے۔ اس طرح ملیریا کے بارے میں اب سے صرف پانچ چھ سال قبل یہ خبریں آرہی تھیں کہ ملیریا کے لیے ویکسین تیار کرلی گئی ہے، ایک ہی خوراک سے علاج بھی ممکن ہوگا۔ لیکن اپریل 2018ء میں دنیا بھر کے لیے ویکسین فراہم کرنے کے کمپیوٹر ماہر مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے اعلان کیا کہ ان کی فائونڈیشن اور دیگر ڈونرز 4 ارب ڈالر سے فنڈ قائم کررہے ہیں تا کہ ملیریا سے ہلاکتوں کو روکا جائے۔ اس وقت بھی انہوں نے کہا تھا کہ میرا مقصد ملیریا کے خلاف طویل عرصے تک چلنے والی ویکسین کی تلاش ہے۔ 4 ارب ڈالر کے خرچ کے باوجود ملیریا ختم ہوا نہ ایسی ویکسین آئی جو ملیریا کو دنیا سے ختم کردے۔ البتہ بل گیٹس اب نئی ویکسین کے مشن پر ہیں۔ ان کی باتیں آج کل کی جانے والی باتوں سے ملتی جلتی ہیں۔ مثال کے طور پر کووڈ 19 نے ہیئت بدل لی ہے۔ اس نے مدافعت پیدا کرلی اور 2018ء میں وہ کہہ رہے تھے کہ مچھر نے ویکسین کے خلاف مدافعت پیدا کرلی ہے۔ کمال ہے بھائی گیٹس صاحب کا۔ ان کو مچھر کی مدافعت کا بھی علم ہے اور نئے جرثومے پر بھی تحقیق کرچکے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2014اور 2015 میں دنیا بھر میں ملیریا کے 21 کروڑ 40 لاکھ کیسز سامنے آئے، ان میں سے 4 لاکھ 38 ہزار افراد ملیریا سے ہلاک ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ ہلاکتوں کی شرح 7 لاکھ ہے۔ اور یہ ایسے مچھروں سے پھیلتی ہے جن پر دوا کا اثر ہی نہیں ہوتا تو پھر بل گیٹس کیا کرتے رہے۔ اب وہ پھر ویکسین بنارہے ہیں اور ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہماری تحریر سے لوگ ایک ہی نکتہ نکال لیتے ہیں کہ یہ شخص کہہ رہا ہے کہ کورونا نہیں ہے۔ ارے بھائی کورونا بھی ہے اس سے ہلاکتیں بھی ہیں۔ لیکن پتا نہیں کہ دنیا کو صرف کورونا سے خوفزدہ کیوں کیا جاتا ہے۔ جس چیز سے جتنی ہلاکت
ہے اس سے آگاہ کیا جائے اور اس سے بچنے کے اقدامات کیے جائیں۔ ہم صرف بیماری اس کے سبب اور اس سے ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہیں باقی کام سوچنے والے خود کریں۔ ورنہ انتظار کریں۔ اقوام متحدہ کے ادارے عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ خراب اور آلودہ پانی اسہال، ہیضہ، دست، ٹائیفائڈ اور پولیو کے جراثیم منتقل کرتا ہے اور سالانہ 4 لاکھ 85 ہزار افراد آلودہ پانی کی وجہ سے اسہال میں مبتلا ہو کر مرجاتے ہیں۔ یعنی بنیادی وجہ آلودہ پانی ہے۔ اسہال کے مرض کی ایک اور تباہی یہ ایسی خطرناک اور مہلک بیماری ہے جس سے دنیا بھر میں روزانہ 2195 بچے مر رہے ہیں لیکن اس کی ہلاکت خیزی پر وہ ہنگامہ نہیں جو ہونا چاہیے۔ اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہے سالانہ 8 لاکھ ایک ہزار 175 بچے صرف آلودہ پانی کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ کوئی بے چینی ہوئی اس پر…؟؟ یہ تعداد دنیا بھر میں ایڈز، ملیریا اور خسرہ سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ صرف تیسری دنیا کے غریبوں کے بچوں کی بیماری ہے۔ امریکا میں جہاں پانی صاف، سڑکیں صاف، اسپتال، بازار، گھر بلکہ کچرا بھی سب صاف ہیں وہاں سالانہ 5 سال سے کم عمر کے ایک لاکھ 67 ہزار بچے اسہال کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوتے ہیں اور تین سو بچے سالانہ مرجاتے ہیں۔ اس اعتبار سے بتدریج دوسری دنیا اور تیسری دنیا میں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ بھارت میں سالانہ 23 لاکھ ہلاکتوں میں سے 3 لاکھ 34 ہزار ہلاکتیں اسہال کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
ایک مرتبہ انسداد پولیو والوں نے ہمیں اپنی پریس کانفرنس میں غلطی سے بلالیا۔ وہاں بھی ہم نے ان کے کام کی تعریف کے ساتھ کہا کہ جو کام آپ کررہے ہیں وہ تو آلودہ پانی کی
وجہ سے پھیلنے والی بیماری ہے تو آپ لوگ صاف پانی کی فراہمی پر اتنا زور کیوں نہیں دیتے، ہلاکت خیزی تو آلودہ پانی کی زیادہ ہے پولیو کی نہیں۔ ان لوگوں نے ہماری گفتگو سن کر بڑا فیصلہ کرلیا۔ اور گزشتہ پانچ سال سے اب وہ ہمیں نہیں بلاتے۔ نہ یہ آئے گا نہ ایسے سوال اٹھائے گا۔ لیکن ہمیں تو خود سے اپنے حکمرانوں سے اپنے اداروں سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ عالمی اداروں کے حقائق کے بھی منافی ہے۔ پاکستان میں بھی ہلاکتوں کی تعداد کو اگر سو فی صد درست بھی مان لیا جائے تو بھی یہ 22 کروڑ کے ملک کے اعتبار سے معمولی ہے۔ اصل معاملہ میڈیا کا ہے، جو صرف لہریں نہیں اٹھا رہا بلکہ طوفانی لہریں اٹھا رہا ہے۔ اس کے سامنے کوئی حقیقی خبر نہیں ٹھیرتی۔ ہاں اس بیماری سے فائدہ پولیس کو ہورہا ہے آج کل لاک ڈائون کے اعلان کے بعد رات کو ساری دکانیں کھانے پینے کی اشیا کی فروخت میں مصروف ہیں۔ پولیس کی چھوٹی سی چوری سے اندازہ لگائیں کہ کتنا مال بنایا جارہا ہوگا۔ یاد رہے کہ یہ مال صرف سپاہی یا ایس ایچ او تک محدود نہیں رہتا اوپر تک مال پہنچتا ہے۔ ایک سپاہی پان کے کھوکھے والے کے پاس آتا ہے۔ اس سے سو روپے لیتا ہے۔ پان والا اسے گلے لگاتا ہے اپنا بھائی قرار دیتا ہے اور سگریٹ دینے سے معذرت کرتا ہے۔ پولیس والا ماسک کے بغیر تھا، دو منٹ میں دوسرا سپاہی اس سے بہت ساری چھالیہ، سیٹی، جے ایم اور سگریٹ لے کر جاتا ہے۔ مشہور کانٹی نینٹل بیکری سے متصل دکان سے ایک پولیس والا دو چکن تکے لیتا ہے، گاڑی میں بیٹھتا ہے یہ جا وہ جا۔ برگر والے سے دوسرا آدمی آکر لیتا ہے۔ یہ تو چھوٹی ترین چوری ہے۔ بڑی دکان بڑا کاروبار بڑا بھتہ ہے۔ اسپتالوں، لیبارٹریوں اور محکمہ صحت کے کیا کہنے گویا سونے کی دکان ہے۔ عوام بیماری سے اور اس کے احتیاطی اقدامات دونوں سے مررہے ہیں۔ لیکن آلودہ پانی ختم کرنے کو کوئی تیار نہیں۔