سیاست میں سرمایہ کاری

442

وہ زمانہ گزر گیا جب لوگ سیاست میں قومی خدمت کے جذبے سے آتے تھے اور اپنی جائدادیں بیچ کر یہ شوق پورا کرتے تھے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان غیر منقسم ہندوستان کے ایک بہت بڑے جاگیردار تھے۔ تحریک پاکستان کے صف اوّل کے قائدین میں شمار ہوتے تھے۔ پاکستان بنا تو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، چاہے تو اپنی وسیع و عریض جاگیر کا کلیم داخل کرکے پاکستان میں بھی جاگیر حاصل کرسکتے تھے اور یہ اصولاً بالکل درست ہوتا لیکن انہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان پر قربان کردیا۔ کوئی کلیم داخل کرنے کے رواداد نہ ہوئے۔ جب شہید ہوئے تو قمیص کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان پہنے ہوئے تھے اور ان کے بینک اکائونٹ میں چند روپوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ ان کے پسماندگان کے پاس رہنے کے لیے اپنا مکان بھی نہ تھا۔ میاں ممتاز دولتانہ اگرچہ جوڑ توڑ کی سیاست کے بہت ماہر تھے لیکن سیاست کے ذریعے مال بنانے اور اپنی دولت میں اضافہ کرنے کا خیال انہیں بھی نہیں آیا اور اپنی زمینیں بیچ کر سیاست کی نذر کرتے رہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان ہمارے دور میں وہ آخری سیاستدان تھے جنہوں نے اس روایت کو برقرا ررکھا اور اپنے آم کے باغات سیاست پر قربان کردیے لیکن اب ہمیں جن سیاستدانوں سے سابقہ پیش آیا ہے، وہ سیاست کو ایک مشن نہیں، کاروبار سمجھتے ہیں اور کاروبار میں سرمایہ کاری کرکے زیادہ سے زیادہ مال کمانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نفع بخش کاروبار ہے جس کے آگے ساری صنعتیں ماند پڑ گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے صنعت کار، سرمایہ دار اور جاگیردار اس کاروبار سے وابستہ ہیں اور سیاست کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔ ان کے پیش نظر قوم کا مفاد نہیں، صرف اپنا مفاد ہے جس کے لیے وہ قوم کے نمائندے بن کر اسمبلیوں میں جاتے اور اپنے حق میں قانون سازی کرتے اور حکومتیں تشکیل دیتے ہیں۔ اس کی نمایاں مثال شریف فیملی اور زرداری گروپ ہے۔ میاں نواز شریف کا خاندان جب جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاست میں داخل ہوا تو اُس وقت اس کی حیثیت ایک اوسط درجے کے صنعت کار خاندان سے زیادہ نہ تھی۔ بھٹو نے اس خاندان کی ’’اتفاق فونڈری‘‘ کو نیشنلائز کردیا تھا اور اسے سخت مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے یہ کارخانہ اسے واپس کردیا تو اس خاندان کے سربراہ میاں محمد شریف کو اپنے کاروباری مفاد کے لیے سیاست میں آنے کا خیال آیا۔ انہوں نے خود تو عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اپنے بیٹوں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے آگے بڑھایا اور یہ خاندان جرنیلوں کی حمایت اور جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے کم و بیش پینتیس سال تک ملک پر حکومت کرتا رہا۔ اس نے سیاست میں جو بھی سرمایہ کاری کی اس کا نفع ہزاروں گنا اضافے کی صورت میں حاصل کیا۔ اس کے کارخانوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ گئی اور اس کے پاس دولت کے انبار لگ گئے۔ سیاست شریف فیملی کے لیے اتنی نفع بخش ثابت ہوئی کہ رفتہ رفتہ خاندان کے تمام افراد سیاست میں آگئے اور سیاست کے ذریعے اپنا کاروبار کرنے لگے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو صرف اپنی مطلق العنان حکمرانی دلچسپی رکھتے تھے انہوں نے مال بنانے پر توجہ نہ دی لیکن ان کے بعد جن لوگوں کے ہاتھ میں پارٹی کی قیادت آئی انہوں نے دولت سمیٹنے کو ہی اپنا مشن بنالیا اور آصف علی زرداری نے اس میدان میں وہ شہرت حاصل کی کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ زرداری فیملی چوں کہ بڑی نہیں ہے اس لیے زرداری نے اپنا ایک گروپ تشکیل دیا جو سیاست میں ان کے مالی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور ان کی دولت میں اضافہ جاری رہتا ہے۔
شریف فیملی اور زرداری گروپ کا ذکر ہم نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ مسلسل برسراقتدار رہے ہیں اور پاکستان کے بہت سے مسائل کا انہیں ذمے دار قرار دیا جاتا ہے، ورنہ بہت سے کاروباری سیاست دان انفرادی طور پر بھی یہی کھیل کھیل رہے ہیں اور حالات کا رُخ دیکھ کر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان دنوں ایک صنعت کار سیاستدان جہانگیر ترین کا ایشو بہت چل رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ شوگر اسکینڈل میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف ایف آئی اے اور دیگر ادارے تحقیقات کررہے ہیں، ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ تحریک انصاف کو برسراقتدار لانے میں ان کا بنیادی کردار رہا ہے۔ انہیں تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کا نہایت قریبی ساتھی سمجھا جاتا تھا، ان کا ہوائی جہاز عمران خان کے لیے وقف تھا اور وہ اپنی انتخابی ہم میں سے رکشے کی طرح استعمال کرتے رہے۔ جہانگیر ترین کے اپنی دولت کا منہ بھی تحریک انصاف کے لیے کھول رکھا تھا کیا یہ بھاری سرمایہ کاری اس لیے تھی کہ تحریک انصاف برسراقتدار آئے تو انہیں احتساب کے شکنجے میں کس دیا جائے؟ کیا جہانگیر ترین یہ توقع رکھتے تھے کہ عمران خان برسراقتدار آتے ہی ان سے آنکھیں پھرلیں گے اور ان کے کاروباری مفاد کا تحفظ کرنے کے بجائے ان پر احتساب کی تلوار لٹکادیں گے؟ یہ جو کچھ ہوا وہ ترین کے لیے غیر متوقع ہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو خود عمران خان نے ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ اگر وہ بے لاگ احتساب پر یقین رکھتے تھے تو انہیں اقتدار میں آنے سے پہلے ہی جہانگیر ترین کو بتادینا چاہیے تھا کہ اگر ان کا قصور نکلا تو ان کے ساتھ بھی رعایت نہیں ہوگی۔ عمومی خیال یہی ہے کہ عمران خان اپنی مرضی سے یہ سب کچھ نہیں کررہے ہیں بلکہ ترین کا مخالف گروپ ان سے کروارہا ہے۔ ترین ایک زیرک سیاستدان ہیں وہ اپنے بچائو کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے لیکن اس کا سب سے زیادہ نقصان خود عمران خان کو ہوگا جن کی کوئی اخلاقی ساکھ باقی نہیں رہے گی۔ انہوں نے بے لاگ احتساب کا نعرہ تو لگایا ہے لیکن اپنے اردگرد اُن لوگوں کو جمع کرلیا ہے جو سب قابل احتساب ہیں اور سیاست میں سرمایہ کاری اور اس کے ذریعے ہزاروں گنا منافع پر یقین رکھتے ہیں۔