افغانستان جنگ میں شدت، شرعی عدالت کا قیام

611

جسارت میں چند دن قبل چھپنے والے کالم میں لکھا تھا کہ امریکی افواج بہت تیزی سے نکلنے کی کوشش کریں گی اور افغانستان میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ امریکی افواج کے انخلا شروع ہو جانے کے بعد افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان زبردست جنگ چھڑ گئی ہے۔ افغانستان وزارت دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ نواحی علاقوں میں بعض چیک پوائنٹس پر حملہ کرنے والے ایک سو سے زیادہ طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔ پاکستان سے آنے والے القاعدہ کے دیگر بائیس جنگجو بھی جنگ کے دوران ہلاک ہو گئے۔ حکام کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے ابتدا میں بعض چیک پوائنٹس پر قبضہ کر لیا تھا لیکن حکومتی فورسز نے انہیں پیچھے دھکیل کر دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ ہلمند صوبائی کونسل کے سربراہ عطاء اللہ افغان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’’دشمنوں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا اسے گنوا چکے ہیں، انہیں بھاری جانی نقصان اٹھا نا پڑا ہے‘‘۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جنگ کے دوران درجنوں افغان فوجیوں کو مار دیا ہے۔ افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان زبردست جنگ چھڑجانے کی وجہ سے ہزارو ں افغان شہری جان بچانے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جنہیں امریکی فوج نے حکومتی فورسز کے سپرد کر دیا ہے۔
امریکی فوج نے یکم مئی سے افغانستان سے بقیہ فوجیوں کا انخلا شروع کر دیا تھا۔ افغانستان کے جن جن علاقوں سے امریکی افواج نکل رہی ہیں وہاں افغان افواج اپنا قبضہ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن امریکی افواج کے ان علاقوں میں موجود اسلحہ اور جاسوسی کے آلات اپنے ہمراہ لے جانے کی وجہ سے افغانستان کی فوج کو کنٹرول سنبھالنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ اُدھر دوسری جانب طالبان افغان افواج پر حملہ کر رہے اور غیر ملکی افواج طالبان کو اطلاع دے کر افغانستان سے نکل رہی ہیں۔
ہلمند میں پناہ گزینوں کے امور کے ڈائریکٹر سید محمد رامین نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کے نواح میں جنگ شروع ہوجانے کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زائد کنبے اپنا گھر چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں نے لشکر گاہ میں پناہ لے رکھی ہے اور یہ ان علاقوں سے آئے ہیں جہاں پچھلے دو دنوں سے شدید جنگ جاری ہے۔ افغانستان سے یکم مئی سے بقیہ امریکی فوجیوں کی واپسی شروع ہونے کے بعد سے دیگر علاقوں میں بھی لڑائی کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ افغانستان میں ہنگامی خدمات کے کوارڈینیٹر مارکو پونٹین نے غیر ملکی اخبارات کو بتایا کہ صرف ہلمند ہی میں لڑائی نہیں ہورہی ہے بلکہ ’’پورے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہو رہاہے۔ امریکا نے افغان حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان جاری جنگ کی شدت کو کم کرکے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں کہا ’’افغانستان میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے فوجیو ں کا انخلا متاثر ہو یا افغانستان میں ہمارے مشن پر کوئی خاص اثر پڑے‘‘۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بدھ کی صبح طبی عملے کو لے جانے والی ایک منی بس کو ہدف بنا کر بم حملہ کیا گیا، جس میں ایک شخص کی موت ہو گئی۔ اس سے یہ بات واضع ہے طالبان اب کابل کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔
کابل پولیس کے ترجمان فردوس فرامرز نے بتایا کہ اس حملے میں تین طبی اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ یہ بس ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو لے کر کابل سے پنج شیر صوبہ جارہی تھی کہ کلا کان ضلع میں اس پر حملہ کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ فوری طور پر کسی نے اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی ہے اور پولیس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے۔ عالمی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی اور ناٹو افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد حکومتی فورسز کو غیریقینی مستقبل اور آنے والے چند ہفتوں کے دوران ہی انتہائی خراب نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2017 کے ابتدائی چار مہینوں میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب افغانستان میں امریکی فضائی حملے سہ گنا کر دیے گئے ہیں۔
دارالحکومت کابل اور اس کے قریبی بگرام ائر بیس پر معمول سے کہیں زیادہ امریکی ہیلی کاپٹروں کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ ہفتہ یکم مئی کو افغانستان بھر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی تاکہ افغان سرزمین سے نکلتے وقت امریکی فوجیوں پر کسی بھی ممکنہ حملے کو ناکام بنایا جا سکے۔ امریکا نے قطر میں موجود اپنے فوجی اڈے پر دوB-52 بمبار کھڑے کر دیے ہیں اسی ائر بیس پہلے بھی دو B-52 بمبار کھڑے ہیں۔ اس کے علاوہ دو ماہ سے بحرین کی بندر گاہ امریکا کا ایک بڑا بحری بیڑہ بھی موجود ہے۔ اْدھر قائم مقام وزیر داخلہ حیات اللہ حیات نے پولیس کے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا، ’’امریکا نے یکم مئی کو باضابطہ طور پر افغانستان سے فوجی انخلا کا آغاز کر دیا ہے اور طالبان اس موقع پر تشدد میں اضافہ کر سکتے ہیں‘‘۔ حیات اللہ حیات اس پریس کانفرنس دوران بھی سامنے نہیں آئے اس کے بر عکس ان کے بیان کی آڈیو کلپ صحافیوں کو فراہم کی گئیں تھیں۔
دوسری جانب افغانستان کے سیاسی اکابرین اور حکومتی ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ’’ذمے دارانہ فوجی انخلا کی امید تھی‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کو فوجی انخلا کے لیے امن مذاکرات میں پیش رفت کا انتظار کرنا چاہیے تھا کیونکہ امریکا کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی مغربی دفاعی اتحاد ناٹو کے دیگر ممالک نے بھی انخلا کا فیصلہ کر لیا۔ یاد رہے کہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات گزشتہ ستمبر سے جاری ہیں لیکن یہ تعطل کا شکار ہو گئے۔ جرمن سمیت دیگر ماہرین انسداد دہشت گردی نے موجودہ حالات کو ’’جہادیوں کے جاگ اْٹھنے کا موقع‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہادیوں کی ایک بار پھر کامیابی کے امکانات ہیں۔ لیکن ایک بات انتہائی اہم کے طالبان نے کابل پہنچے سے قبل ہی شرعی عدالت قائم کر دی ہے جس نے کام شروع کر دیا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں اسلامی انصاف کے قیام کو یقینی بنایا جائے گا۔