یہود محافظ یورپی یونین کا ناموسِ رسالت پر حملہ

424

یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہین رسالت کے قانون پر تنقید کرتے ہوئے پاکستان کا جی ایس پی اسٹیٹس ختم کرنے کے لیے نظر ثانی کی قرارداد منظوری کرلی ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ قرارداد یورپی پارلیمنٹ کی ایکسٹرنل ایکشن سروس سے وابستہ ماہرین نے پیش کی ہے جس میں یورپی یونین سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے جی ایس پی پلس درجے پر نظرثانی کرے یا اسے عارضی طور پر ختم کردے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی قرار داد کی یورپی قوانین میں کیا اہمیت ہے۔ یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے25 اکتوبر 2018ء کو اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ پیغمبر ِ اسلام کی توہین ’’آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے اوراس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے ‘‘۔ عدالت نے یہ فیصلہ پیغمبر ِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز کلمات کہنے اور آسٹریا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون، جس کا نام ظاہر کرنے کے بجائے اسے صرف ای ایس کہا جاتا ہے کی اپیل کے خلاف فیصلے میں کہا تھا، اس خاتون نے 2008 اور 2009 میں ’اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات‘ کے عنوان کے تحت مختلف تقاریر میں پیغمبر ِ اسلام کے بارے میں چند کلمات ادا کیے تھے جن کی پاداش میں ان پر ویانا کی ایک عدالت میں مقدمہ چلا اور عدالت نے انہیں فروری 2011 میں مذہبی اصولوں کی تحقیر کا مجرم قرار دیتے ہوئے 480 یورو کا جرمانہ، مع مقدمے کا خرچ، عائد کر دیا۔ قبل ازیں اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 2013 میں آسٹریا کی عدالت عظمیٰ نے بھی اس مقدمے کو خارج کر دیا تھا۔ 2018ء میں ای سی ایچ آر نے کہا تھا کہ آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ ’مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کا جائز مقصد ادا کرتا ہے‘۔ یورپی عدالت نے قرار دیا کہ شق 10 کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں واقع ای ایچ سی آر نے فیصلہ دیا کہ آسٹریا کی عدالت نے خاتون کو سزا دیتے وقت ’ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی احساسات کے تحفظ کے حق کا بڑی احتیاط سے توازن برقرار رکھا ہے‘۔ یہ فیصلہ ججوں کے سات رکنی پینل نے دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ!
آسٹریا کی عدالت نے مذہبی امن و امن برقرار رکھنے کے جائز حق کی پاسداری کی ہے۔ آسٹریا کی عدالت کے فیصلے بعد ای ایس نے یورپی یونین کے قانون کی انسانی حقوق کے بارے میں شق کا سہارا لیتے ہوئے یورپی عدالت میں اپیل کی تھی کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم ای ایچ سی آر نے فیصلہ صادر کیا کہ ای ایس خاتون کے ’بیانات معروضی بحث کی جائز حدود سے تجاوز کرتے ہیں اور انہیں پیغمبر ِ اسلام پر حملہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے۔
اس عدالت کی یورپ میں قانونی حیثیت کیا ہے۔ یہ عدالت یورپی یونین کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا کام افراد اور ملکوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں جاری کردہ مقدمات پر فیصلہ سنانا ہے۔ یہ عدالت خود کوئی کیس نہیں لے سکتی۔ عدالت یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کے تحت فیصلے سناتی ہے جس پر 47 ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ عدالت کے سامنے پیش کردہ مقدمات کے لیے ضروری ہے کہ ان میں کہا گیا ہوکہ کسی ملک نے کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے جس سے کسی فرد یا گروہ کو قابلِ ذکر نقصان پہنچا ہو۔
عدالت کل 47 ججوں پر مشتمل ہے جن کے نام یورپی یونین کے رکن ممالک تجویز کرتے ہیں جب کہ ان کا انتخاب کونسل آف یورپ کی پارلیمانی اسمبلی کرتی ہے۔ ای ایس نامی آسٹرین خاتون نے اسی سلسلے میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ آسٹریا کی مقامی عدالتوں نے ان کے آزادیِ اظہار کے بنیادی حق کا تحفظ نہ کر کے یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) کے اس فیصلے کے بعد یورپی پارلیمنٹ اپنی ہی عدالت کے فیصلے کی مخالفت میں پاکستان میں توہین رسالت قوانین کے خلاف قرار داد کیسے پاس کر سکتی۔ اس کی قانونی حیثیت کو یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق ہی میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟
افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس قرار داد کے متعدد نکات میں بطورِ خاص پاکستان میں توہین ِ رسالت کی سزا کے قانون آرٹیکل 295 بی اور سی کا باربار ذکر کے اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے جس پر یورپی پارلیمنٹ نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ مثلاً ایک مقام پر کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے معاملے میں صحافیوں پر آن لائن اور آف لائن حملوں میں اضافہ ہوا۔ قرارداد میں کم سے کم تین جگہوں پر فرانس کی تائید کی گئی ہے اور پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو ہراساں کرنے کی روک تھام اور پاکستان میں رہائش پزیر فرانسیسی باشندوں کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یورپین ایکسٹرنل ایکشن سروس (ای ای اے ایس) فوری طور پر پاکستان کو دیے جانے والے جی ایس پی پلس درجے پر نظرثانی کرے یا اسے جزوقتی طور پر موقوف کرکے پاکستان پر دباؤ بڑھائے۔ قرارداد میں متعدد مرتبہ شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثر کا ذکر کیا ہے جو آرٹیکل 295 بی کے تحت گرفتار ہیں۔
لیکن اس قدر سخت قرار داد پر پاکستان کا جواب انتہائی نرم و نازک اور پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے کے مصداق ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ یورپین پارلیمنٹ میں گفتگو سے پاکستان میں توہین رسالت قوانین اور مذہبی حساسیت کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار ہوتا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستان میں توہین رسالت قوانین کے حوالے سے پاس کی گئی قرارداد پر مایوسی ہوئی ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ یورپین پارلیمنٹ میں گفتگو سے پاکستان میں کے عدالتی نظام اور ملکی قوانین کے حوالے سے غیر ضروری تبصرہ قابل افسوس ہے، پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت، فعال سول سوسائٹی، آزاد میڈیا اور خود مختار عدلیہ موجود ہے جو تمام شہریوں کے بلاامتیاز انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے پرعزم ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ یہودیوں کے تحفظ کی تنظیم یورپی یونین کو اتنی جسارت ہوئی کہ اس نے آج اس بات کا اعلان کر دیا پاکستان کی حکومت توہیں رسالت کر نے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کر نے کے بجائے توہین ِ رسالت کرنے والوں کا تحفظ اور ان کی ہر طرح سے حفاظت کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
ہم نے اپنے کالموں میں متعدد مرتبہ یہ لکھ چکے ہیں کہ یورپ کے اکثر ملکوں میں ہولوکاسٹ (دوسری جنگ ِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کا قتلِ عام) سے انکار جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کیخلاف 1905ء سے قوانین موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یہ سب کچھ اچانک ہوگیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پاکستان جنرل ضیا الحق کے بعد تمام حکمرانوں نے توہین ِ رسالت کے قوانین میں ترمیم کی کوشش کی ہے جن میں پی پی پی اور ن لیگ اور اب تحریک ِ انصاف کی حکومت شامل ہے۔ حکمرانوں نے توہین ِ رسالت کے قانون پر دو ٹو فیصلہ کبھی بھی نہیں لیا اور اسی کمزوریوں نے آج یورپی یونین نے اس بات کی جسارت کی ہے کہ وہ اس قانون کو ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔