فیصلہ کس کے ہاتھ میں ہے

321

سیاست ذہنی کام ہے، یہ جسمانی مشقت کا کام نہیں ہے، سوچ بچار، سمجھ بوجھ سیاست کا بنیادی اصول ہے، اسی لیے قانون دان، آئین کی سمجھ رکھنے اور دلیل پر مبنی گفتگو کے فن سے آشنا ماہر افراد ہی اس میں کامیاب دکھائی دیے ہیں، جسمانی زور آزمائی پر یقین رکھنے والے افراد کبھی بھی سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکتے، سیاست میں عمران خان کی پہلی اٹھان ضیاء دور میں ہوئی، جب انہیں کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت سے رابطے کے لیے استعمال کیا گیا اس کے بعد 92 کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان کی مقبولیت کیش کرانے کی کوشش ہوئی اور انہیں اس میدان میں حمیدگل میدان میں لائے اور انہیں ڈھال فراہم کی، 92 سے 1995 تک کے عرصہ میں عمران خان کی تمام تر توجہ شوکت خانم اسپتال تک مرکوز رہی، اسپتال بن گیا تو اس کریڈٹ کے ساتھ تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی، اور 1996 سے 2013 تک کا سفر سترہ سال کی کہانی ہے اس دوران ملک میں 2013, 2008, 2002, 1997 میں چار عام انتخابات ہوئے، 2008 میں تحریک انصاف نے بائی کاٹ کیا، دیگرتین انتخابات میں حصہ لیتی رہی، مگر عوام نے تحریک انصاف کی قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قابلیت پر بھروسا نہیں کیا، عوام کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوا، عمران خان خود بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہیں 1992 کے بعد کس طرح سیاسی میدان کے لیے تیار کیا گیا، وہ یہ بھی جانتے ہیں اور یہ بات انہی کے انٹریوز کے ذریعے ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں نہیں آئے، اقتدار میں آنے کے لیے ان کی رائے کیا تھی، انہیں علم تھا کہ اقتدار کے لیے بیساکھی چاہیے، سو یہ دعویٰ کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئے، خود ایک سوالیہ نشان ہے، 2002 میں ملک میں عام انتخابات جنرل مشرف کی نگرانی میں ہوئے، عمران خان ان کے پسندیدہ تھے، حتی کہ تحریک انصاف نے ان کے ریفرنڈم کی حمایت بھی کی اور اس کے لیے کام بھی کیا، مگر بعد میں راہیں اس لیے جد ہوگئیں کہ جنرل مشرف انہیں اسمبلی کی نشستیں ان کی خواہش کے مطابق نہ دے سکے بقول جنرل پرویز مشرف عمران خان اُن سے اپنے حصّے سے بہت زیادہ مانگ رہے تھے۔ 2018 میں انہیں کامیابی ملی، اب وہ اس کامیابی کو اپنی سیاسی جدوجہد قرار دے رہے ہیں مگر ان کے مخالف سیاسی کیمپ میں سلیکٹڈ وزیرِ اعظم کی اذان دی جارہی ہے، گویا ان کے سیاسی مخالفین کی رائے تبدیل نہیں ہوئی۔ عمران خان چونکہ کھلاڑی رہے ہیں، کھلاڑی جسمانی مشقت پر یقین رکھتا ہے، اس کے بغیر اس کی فٹنس نہیں رہتی، کھیل کے میدان میں ایک کونے میں کھڑا ہوکر ذہن سے نہیں سوچتا بلکہ جسمانی قوت سے آگے بڑھتا ہے، میچ میںہر قیمت پر کامیابی چاہتا ہے حتی کہ مخالف کھلاڑی کو زخمی بھی کرنا پڑے تو کوئی ہرج نہیں سمجھتا، اس کے برعکس سیاست گفتگو، دلیل اور ذہنی سوچ بچار کا کام ہے۔
ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں، ہمارے سیاسی رہنماء دنیا کے بہترین جگت باز ہیں، اس میں کسی کو استثناء نہیں ہے، عمران خان جب سے سیاست میں آئے ہیں، سیاست میں کرکٹ کی اصطلاح لائے ہیں، ان سے پہلے اختر رسول اور سرفراز نواز بھی انتخابی عمل میں شریک رہے ہیں مگر ان دونوں نے کبھی کھیل کی اصطلاحات اپنی انتخابی کارنر میٹنگز استعمال نہیں کی تھیں، عمران خان نے بات کی امپائر سے شروع کی کہ بس اب امپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے، اسی طرح وہ بائونسر، ایل بی ڈبلیو جیسی اصطلاحات بھی استعمال کرتے رہے، عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ کرکٹ میں غیر جانب دار امپائر کا تصور وہی لائے، بالکل ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ ان دنوں عالمی کرکٹ میں مسائل تھے، غیر جانب دار امپائر کا مطلب مقامی امپائر پر عدم اعتماد تھا، اگر آج ہم دنیا کو کرکٹ کی نظر سے دیکھیں تو 2019 میں وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کے دورے سے واپسی پر کہا کہ انہیں ایسی کامیابی مل گئی جو کرکٹ کے عالمی کپ سے بھی بڑی ہے، ان کی وطن واپسی کے چند ہفتوں کے بعد پانچ اگست 2019 آگیا۔
جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود اسے کشمیر کی تقسیم کی ابتداء کہتے ہیں، آزاد کشمیر کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس بارے میں اپنی رائے ضرور عوام کے سامنے رکھیں، تاکہ پتا چل سکے کہ یہ آخر ہے کیا؟ اور یہ عالمی کپ کس کے ہاتھ میں ہے، عمران الیون نے اقتدار میں آنے سے پہلے کوہِ ہمالیہ سے بھی بلند و بالا دعوے کیے۔ اب تین سال گزر جانے پر لگ رہا ہے کہ یہ اعلانات شاید حفیظ شیخ جیسے لوگوں کے لیے تھے جنہیں پاکستان میں نوکری ملی، پاکستان میں ان تین سال لاکھوں محنت کش، مزدور بیروزگار ہوئے ہیں، یہاںآزادی اظہار پر پابندیاں، جی ڈی پی منفی اعشاریہ چار پر ،کرپشن میں 7 درجے اضافہ اور گرین پاسپورٹ کی قدر میں چار درجے کمی ہو گئی، معیشت یوں تباہ حال ہوئی کہ 71 سال میں جتنی مہنگائی ہوئی صرف تین سال میں اس میں چار گنا اضافہ ہوگیا، مودی نے کشمیر کو بھارت میں ضم کردیا اور ہماری خارجہ پالیسی روایتی دیرینہ دوستوں سے بھی محروم، اپوزیشن کے خلاف نفرت انتقام اور گالی گلوچ کی سیاست کے باعث ملک کو شدید سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے اچھی ٹیم بنانے کے ماہر ہونے کے دعویدار کھلاڑی بدل بدل میچ کھیل رہے ہیں کرکٹ کی زبان میں بات کریں تو حکومت بوکھلاہٹ میں بیسیوں مرتبہ ہٹ وکٹ ہوچکی ہے اپنی ہر ناکامی پچھلی حکومتوں کے سر تھوپی جارہی ہے، اب تاریخ کے امپائر کے فیصلے کا انتظار ہے۔