شکست خوردہ مغربی تہذیب کا آخری وار

960

عبدالحفیظ بٹ
ایک غلط فہمی اور اْس کا ازالہ: پاکستان میں مغرب زدہ روشن خیالی کے خبط میں مبتلا نام نہاد دانشور اور ان کے ہم نوا بعض علماء کی جانب سے عوام الناس اور بالخصوص مسلمانوں کویہ دھوکا دینے کی کوشش کی گئی کہ ’’حکومت ِ فرانس نے جو گستاخانہ فعل کیا ہے اس پر کسی اسلامی قانون ِ شریعت کا اطلاق نہیں ہوسکتا، کیونکہ فرانس نہ تو اسلامی ریاست ہے اور نہ ہی کسی اسلامی مملکت کاحصہ ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اِس ضمن میں مدینہ کی اسلامی ریاست کا مشہور واقعہ یہودی سردار دار کعب بن اشرف کے قتل کا ہے۔ یہودیوں میں یہ وہ شخص تھا جسے اسلام اور اہلِ اسلام سے سخت عداوت تھی۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی شاندار کامیابی کی خبر سننے کے بعد اللہ کا یہ دشمن رسول اللہؐ اور مسلمانوں کی ہجو پر اتر آیا تھا۔ کعب بن اشرف کے قتل کے بارے میں روایات کا حاصل یہ ہے کہ جب رسول اللہؐ نے یہ فرمایا کہ کعب بن اشرف سے کون نبٹے گا؟ محمد بن مسلمہ (رضی اللہ عنہ) نے اْٹھ کرعرض کیا: یا رسول اللہؐ میں حاضر ہوں۔ کیا آپؐ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔ پیش نظر رہے کہ عالمِ اسلام کے ممتاز محقق و دانشور ڈاکٹر محمد حمید اللہ (مرحوم) کی تحقیق کے مطابق کعب بن اشرف مدینہ کی اسلامی ریاست کا باشندہ یا شہری حتیٰ کا ذِمّی بھی نہ تھا کہ جس کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار مدینہ کی اسلامی ریاست ہوتی۔ وہ مدینہ کی اسلامی ریاست کی حدود سے باہر ایک آزاد و خودمختار مالدار سرمایہ دار کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ کعب بن اشرف کا قلعہ مدینہ کی اسلامی ریاست سے باہر تھا اس لیے اس کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
موجودہ صورتحال میں مسلم اْمہ کیا کرے: اس تکلیف دہ صورتحال سے نبٹنے کے لیے قرآن مجید اہل ِ ایمان کو بہت واضح تعلیم دیتا ہے اور اْنہیں اِس موقع پر مدد و رہنمائی فراہم کرتاہے۔ اللہ کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں، تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے، وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے‘‘۔ (سورہ احزاب آیات 41 تا 43)
اس حوالے سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ رقمطراز ہیں: ’’جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسولؐ پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہورہی ہو اور دین ِ حق کوزک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسولؐ کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہلِ ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بے ہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سنتے رہیں، اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں، اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں، بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں۔ کفار و منافقین کی ساری جلن اس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اس رسولؐ کی بدولت تمہارے اْوپر ہوئی ہے۔ اْسی کے ذریعے سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی، کفر و جاہلیت کی تاریکیوں سے نکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے، اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم اعلانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسولؐ پر نکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اِس رحمت سے محروم ہوجاؤ‘‘۔ (سورہ احزاب حاشیہ 78 تا 79 تفہیم القرآن جلد چہارم)
اسلام غالب آئے گا: دنیا میں اسلام کے نام لیوا حق کے علمبردار اکیلے نہیں ہیں۔ فاطرِ کائنات اور فطرت ِ انسانی کی قوتیں ان کے ساتھ ہیں۔ یہ قوتیں ہر اِس چیز سے بڑی ہیں جو ’’مادی تہذیب‘‘ کی صورت میں فطرت پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ جب مادی تہذیب اور فطرت کے درمیان کش مکش برپا ہو جائے تو فطرت کا کامیاب ہونا ربِّ ذوالجلال کی طرف سے مقدر کر دیا جاتا ہے۔ اس بات سے قطعِ نظر کہ فطرت و تہذیب کی یہ معرکہ آرائی تھوڑے عرصہ کے لیے جاری رہتی ہے یا زیادہ عرصے کے لیے۔ بین الاقوامی منظر نامہ یہ ہے کہ دنیا پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ اسلام ہی وہ الہامی مذہب ہے جو نوعِ انسانی کو موجودہ تباہ کن خطرات سے نجات دلا سکتا ہے یہ اسلام ہی کی خوبی ہے کہ وہ انسانیت کو ایک ایسا نظامِ زندگی عطا کر سکتا ہے جو اس کی فطرت اور زندگی کی حقیقی ضروریات کے عین مطابق ہو۔ اسلام ہی اس کی مادی ایجادات میں ترقی اور روحانی اور اخلاقی نشو و نما میں کامل ہم آہنگی پیدا کرسکتا ہے اور اسلام ہی وہ دین ہے جو زندگی کا ایک ایسا حقیقی نظام قائم کرسکتا ہے جو انسانیت کی تابندہ ترقی و خوشحالی اور روحانی ترقی وبالیدگی میں بیک وقت توازن قائم کر سکتا ہے۔ جس کی مثال ساری انسانی تاریخ میں سوائے اسلامی نظام کے کہیں نہیں مل سکتی۔ انسانیت کے مستقبل کی باگ ڈور اسلام کے ہاتھ میں ہے۔ اسلام کا مستقبل روشن ہے۔ اسلام کو روئے زمین پر اب غالب آنے سے کوئی دنیاوی طاقتیں نہیں روک سکتی ہیں۔ مستقبل اسلام اور مسلمانوں ہی کا ہے اور اقبالؒ کے الفاظ میں اس کے لیے شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ:
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں