تجھ کو پرائی کیا پڑی

325

 

شرَفِ عالم
میں: آج مجھے ایک سوال کا جواب دو کہ پاکستان کا اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا؟
وہ: یہی سوال آج سے کم وبیش پچاس سال قبل مولانا مودودی سے کسی نے کیا تھا ’’مولانا نے جواب دیا کہ بھائی اونٹ ہو تو کسی کروٹ بیٹھے یہ تو گدھا ہے بس لوٹے چلا جا رہا ہے‘‘۔ اور اتنا تو تمہیں پتا ہی ہوگا کہ گدھا صرف اسی وقت لوٹتا ہے جب اس پہ مستی چھائی ہوتی ہے اور مجھے تو لگتا ہے مستی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ خیر چھوڑو آج میں تمہیں ایک نئی کہانی سناتا ہوں۔
میں: پھر کسی احمق اور بے وقوف کی کہانی؟ تمہارے پاس اور ہے ہی کیا میرے لیے۔ سنائو ویسے بھی میرے سوا تمہاری سنتا کون ہے۔
وہ: میں کیا کروں دوست، جس گلستاں میں ہر شاخ پر الو بیٹھا ہو، وہاں احمقوں اور بہروپیوں کے قصے کہانیاں ہی رہ جاتے ہیں سنانے کے لیے۔
میں: کس گلستاں کی بات کررہے ہو، کیا تمہاری مراد پاکستان ہے؟
وہ: نہیں بالکل نہیں، اس گلستان کی شاخوں پر تو بے وقوفوں نہیں بھوت پریت کا بسیرا ہے اور بھوتوں سے انسان خوف کھاتا ہے، ان کے قریب جانے سے بھی ڈرتا ہے۔ اگر یہ لوگ پاگل اور بے وقوف ہوتے تو ڈر کا ہے کا تھا۔ کیوں کہ احمق اور بے وقوف تو ہمیشہ اپنا نقصان کرتا ہے، اس کی وجہ سے کسی دوسرے کا نقصان شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ تم دیکھ لو گزشتہ بہتر تہتر سال میں اس گلستان میں جتنے لوگ آئے گئے کسی کا آج تک رتی ّ برابر بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ جو بھی آیا اس نے ڈٹ کے کمایا،
بوریاں بھربھر مال سمیٹا، پیٹ بھر کے کھایا۔ اور جب ان بھوت پریتوں کی وجہ سے آدھا گلستان اجڑ گیا توان میں سے کسی ایک کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا‘‘ تاریخ کے صفحات پر آج بھی محفوظ ہیں۔ میں سلام پیش کرتا ہوں اس گلستان کے موجودہ رکھوالوں کی فہم وفراست کو جو اپنے کردار کو بخوبی نبھا رہے ہیں، کم ازکم اتنی اخلاقی جرأت تو رکھتے ہیں کہ برسوں سے ڈرے سہمے عوام کو گاہے گاہے یہ تسلی دیتے رہتے ہیں کہ آپ کو ڈرنا نہیں ہے، آپ کو گھبرانا نہیں ہے۔
میں: کیسی باتیں کررہے ہو کوئی بھوت تمہارے پیچھے پڑ گیا نا تو بچنا مشکل ہوجائے گا۔
وہ: میں یہ باتیں کب کرنا چاہتا تھا وہ تو بس بات سے بات نکل آئی۔ میں تو ان دیوانوں اور فرزانوں کی بات کررہا تھا جو گزشتہ پچاس سال سے بنگلا دیش کے مختلف پناہ گزین کیمپوں میں ’وفاداری بشرط استواری اصلِ ایماں ہے‘ کے مصداق پاکستان یعنی اپنے دین وایمان سے محبت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ بنگلا دیش کو وہ اس لیے قابل قبول نہیں کیوں کہ وہ نسلاً بنگالی نہیں، ۴۷ء کی ہجرت کے وقت ہندوستان کے صوبہ بہار سے مشرقی پاکستان آئے تھے۔ اور پاکستان انہیں لانے سے اس لیے مانع ہے کہ کہیں ہماری معیشت عدم استحکام کا شکار نہ ہوجائے اورکچھ سیاسی عناصر بھی محب وطن پاکستانیوں کی واپسی پر متفق نہیں۔
میں: مجھے لگتا ہے یہ مفادات کا کھیل ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوتا؟
وہ: شاید تمہاری بات درست ہے، ہمارے ملک کے کرتا دھرتائوں نے ہمیشہ ہی عوام کی خواہشات وجذبات کے برعکس صرف اپنے مفادات کو پیش نظر رکھا ہے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے میں ان کا مفاد تھا تو سب نے مل کر اونٹ کو بخوشی ایک کروٹ بٹھا دیا، بنگلا دیش میں پھنس جانے والے مجبوروں کو پاکستان واپس لانے میں ان کا کوئی مفاد نہیں اس لیے بقول استاد ذوقؔ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔
میں: مگر یہ لوگ پرائے نہیں ہمارے اپنے ہیں، برسوں سے پاکستان سے محبت کا دم بھررہے ہیں۔ ہر روز جی رہے ہیں ہر روز مررہے ہیں۔
وہ: تمہاری یہ بات بھی سو فی صد درست ہے، مگر مفادات کا یہ معاملہ صرف پاکستان ہی تک محدود نہیں، دنیا کے ہر ملک، ہر قوم کا مذہب اب صرف اس کے مفادات ہیں غیرت و حمیت نہیں، اصول وقوانین نہیں، مظلوم کی چارہ سازی نہیں۔ ظالم کی سرکوبی بھی صرف اسی صورت میں کی جائے گی جب مظلوم سے کسی فائدے کی توقع ہو۔ اور یہ مفادات معیشت سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، بھارت کا کشمیر میں غاصبانہ قبضہ اور مظلوم کشمیریوں پر ظلم اسی طرح برقرار ہے۔ پاکستان زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہا، دیگر اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کو بھارت کی ناراضی قبول نہیں، کیوں کہ انہیں سوا ارب آبادی کے ملک سے اپنی تجارت جاری رکھنی ہے۔ چین ایغور مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کے در پہ ہے اورنئی اصلاحات کے ذریعے ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے مکروہ عزائم کو آگے بڑھا رہا ہے، مگر معاشی ترقی کا چڑھتا سور ج ہے اس لیے سب اس کی پوجا پاٹ میں لگے ہیں۔ سال دوسال پہ چین میں مسلمانو ںکے لیے قائم مخصوص کیمپوں پرکوئی امریکی رپورٹ بھی صرف اس لیے آجاتی ہے کہ اسے ڈر ہے کہ کہیں چین، امریکی اجارہ داری کو پوری طرح نہ ہڑپ لے، اسے بھی کسی نہ کسی بہانے ڈرانا دھمکانا ضروری ہے۔ ورنہ امریکا جیسے ملک کو کسی مسلمان اقلیت سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے۔ یہ تو صرف سامنے کی کچھ مثالیں ہیں، ویسے یہ موضوع بھی ایک کتاب لکھنے کا متقاضی ہے۔ اب خود ہی سمجھ لو سوا کروڑ سے زائد کشمیریوں اور اندازاً ایک کروڑ 30لاکھ ایغور مسلمانوں کی عالمی طاقتوں کے مفادات کے سامنے کوئی اوقات نہیں تو چار پانچ لاکھ محصورین بنگلا دیش کیا بیچتے ہیں۔