انتظامی اصلاح

300

آخری حصہ
قیام پاکستان کے وقت قدرت نے یہ بہترین موقع فراہم کیا تھا کہ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں قومی اور مذہبی و ملی تقاضوں کے مطابق بہت سی تبدیلیاں کر سکتے تھے اگر ہم اس موقع پر انگریزوں کی خدمت پر عطا کردہ جاگیریں جو 1857کے انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے عطا کی گئیں تھیں بہ حق سرکار ضبط کر کے غریب کسانوں میں تقسیم کردیتے جیسا کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ابتداء ہی میں کیا تھا تو ہمارے ملک کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ میں ازخود انقلابی تبدیلیاں رونما ہو جاتیں انگریزوں کی عطا کردہ جاگیروں سے استفادہ کرنے والے خاندان ہی تو ہیں جو نہ صرف اعلیٰ ترین سرکاری اور انتظامی مناصب سے آج تک استفادہ کررہے ہیں بلکہ ملک کے سیاسی منظر پر بھی پوری طرح ان ہی کا مکمل عمل دخل بھی ہے اور وہ طبقات ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ ملکی نظم و نسق کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہر طرح کے جتن کرتے ہیں تاکہ ان کے اسٹیٹس میں کوئی فرق نہ آئے ان طبقات کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو اپنے طبقے کا تحفظ ان کی اولین ترجیح ہوتا ہے اور شاید یہی وجہ کے نہ تو ہمارے ملک میں نظریاتی سیاست کو اب تک کوئی فروغ حاصل ہوا اور نہ ملک میں کبھی حقیقی اور عوامی جمہوریت کو استحکام حاصل ہوسکا اور اگر کوئی فرد اپنی عوام دوستی یا اپنی صلاحیتوںکی وجہ ان کے درمیان پہنچ بھی گیا تو اس کا کردار اتنا محدود رہا کہ اس کی عوام دوستی اور مقبولیت کا گراف بھی ملک اور قوم کے کسی کام نہ آسکا۔
ملک کے صنعتی میدانوں میں بھی ابتداء ہی سے کچھ مخصوص خانوادوں کی اجارہ داری رہی یہ درست کہ قیام پاکستان کہ وقت ہمارے پاس سرمائے کی خاصی کمی تھی لیکن یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ عوام کے ٹیکسوں اور قرضوں سے حاصل کیا جانے والا سرمایہ بینکوں کے ذریعے کچھ مخصوص تجارتی طبقات تک محدود رہا اور صرف وہی افراد سرکاری وسائل سے استفادہ کر سکے جو حکمرانوں اور بیورو کریسی کے ساتھ بہتر تعلقات رکھتے تھے ایسے افراد کو نرم شرائط اور برائے نام سود پر نہ صرف مالیاتی اداروں سے قرضے فراہم کیے گئے جو بیرون ملک بھی منتقل ہوئے اور خسارہ ظاہر کر کے معاف بھی کرالیے گئے آج انھی قرضوں کے بوجھ تلے ہماری آنے والی نسلیں بھی نہ صرف دبی ہوئی ہیں بلکہ انہی قرضوں کی وجہ سے عوام استیصال کا شکار ہیں ہمارے ملک میں عوامی سرمائے سے ملیں اور کارخانے قائم بھی کیے گئے تو ان میں اول تو من پسند افراد کو ملازمتوں سے نوازا گیا اور پھر جب یہ منافع بخش طور پر چل نکلے تو اپنے ہی افراد کو یہ اپنے مفاد کے مد نظر پرائیویٹ سیکٹر کو منتقل کردیے گئے مزید ان اداروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دی گئی اس طرح ملکی آمدنی کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا ان صنعت کاروں نے اپنا حلقہ اثر اتنا مضبوط کر لیا کہ یہی بااثر افراد ملک کے انتظامی اداروں میں بھی مسند نشین تھے اور اقتدار کے ایوان بھی ان کی خوشنودی میں ملکی اور قوم کے مفاد کو پس پشت ڈالنے میں پیش پیش تھے۔
اسی طرح شعبہ زراعت سے منسلک طبقہ بھی سیاسی اور انتظامی شعبوں پر خاصہ اثر رسوخ کا حامل ہے اور اسی وجہ سے یہ شعبے تمام تر ملکی وسائل سے استفادہ کرنے کے باوجود ٹیکس دینے سے گریزاں ہے ظاہر سی بات ہے کہ ملکی نظام کو چلانے کے لیے زرکثیر کی ضرورت ہوتی تاکہ ایک عام آدمی کے مسائل بھی ریاست حل کر سکے لیکن جب مصلحت پسندی کی بنیاد پر صنعت اور زراعت کے شعبوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ یا رعایت دی جائے گی تو بھلا ملک کیسے ترقی کا سفر طے کر سکتا ہے۔ یہ عجیب صورت حال کہ ایک عام آدمی سے تو غیر ضروری اور بلا جواز ٹیکس بھی وصول کرنے کے تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور جن سے ٹیکس وصول کر کے ملکی قرضوں کے بوجھ کو ختم کیا جا سکتا ہے انہیں تمام دروازوں سے رعایت دے کر نوازا گیا اور جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ جب ہمارے ملک کے بھولے عوام نے سنا کہ عمران خان اور ان کے ساتھی اس فرسودہ اور گھسے پٹے سیاسی اور انتظامی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے میدان عمل میں آگئے ہیں تو عوام نے سکون کا سانس لیا کہ چلو کسی کو تو عوام کا خیال آیا لیکن یہ خیال خام خیالی میں اس وقت تبدیل ہوگیا جب عمران خان نے یوٹرن لیتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے کے لیے انہی سیاستدانوں کے چلمن میں پناہ تلاش کی جو اس ملک کی سیاست انتظام اور جمہوریت کو ایک طویل عرصہ سے اپنی مٹھی میں بند کیے ہوئے تھے پھر عوام نے دیکھا کہ عمران خان اقتدار پر تو چھا گئے لیکن اس ملک کے سیاسی اور انتظامی نظام میں نہ تو کوئی تبدیلی رونما ہوئی اور نہ ہی سابقہ رواج بدلے صرف ایک کرپشن کا شور مچا کر باقی استیصالی نظام کو اسی طرح بے لگام سرپٹ دوڑنے کے لیے چھوڑ دیا جس طرح وہ اپنے سابقہ ادوار میں کسی کو فائدہ مند بنا رہا تھا اورکسی سے اس کا مستقبل چھین رہا تھا عوام آج بھی اس بات کے تمنائی ہیں کوئی اٹھے اور اس فرسودہ نظام کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے ایک مثالی نظام میں تبدیل کردے جب کو ئی بے روزگار نہ رہے کوئی سر چھپانے کے ٹھکانے سے محروم نہ رہے کسی کا بچہ ایک معمولی سے کھلونے کے انتظار میں موت کی آغوش میں نہ جا سوئے اور کسی کا باپ صرف ایک معمولی سا بستہ نہ دلانے کی استطا عت پر موت کو گلے نہ لگالے کسی عور ت اور لڑکی کے سر سے چادر نہ کھینچی جائے کوئی بیمار دو اور علاج کی عدم سہولت پر موت کی آغوش میں نہ چلا جائے کہیں کسی کو کسی شیلٹر ہوم میں پناہ نہ لینی پڑے بلکہ ریاست ایک ماں کی طرح ہر ضرورت مند کی ضرورتوں کا مدوا کرے، ظلم اور جرم کا خاتمہ کرے عوامی وسائل عوام کے لیے اس طرح وقف کردیے جائیں کہ کہیں کو ضرورت مند اور سائل نظر نہ آئے ایک ہی صف میں محمود اور ایاز کھڑے نظر آئیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم محمد عربیؐ کے دامن رحمت سے استفادہ کرتے ہوئے ان کے دیے ہوئے نظام کو بلا چوں چرا من و عن اسی طرح نافذ اور جاری کردیں جس طرح آپؐ کے اصحاب نے بحیثیت خلفاء جاری رکھا یہ محمد عربیؐ کے نظام کا فیضان تھا کہ لا کھوں مربع میل پر محیط حکومت میں کہیں کوئی پریشان اور دکھی نہیں تھا حکومت کے ذمے دار اپنے عوام کی دیکھ بھال کے لیے اپنا رات کا آرام بھی تیاگ دیتے تھے کہ کوئی کسی مشکل اور پریشانی کا شکار نہ ہو آج ہمیں کسی مغربی اور مشرقی اصلاحاتی ایجنڈے کی ضرروت نہیں ہے ہم سب کا سکون اور اطمینان صرف اور صرف رحمت العالمین کے پیش کردہ اصلاحی نظام میں مضمر ہے خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حا لت کے بدلنے کا