اس کھیل میں کیا کھویا، کیا پایا، کیا سیکھا

635

پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو شوکاز نوٹس کا اجرا!! عاشق کو محبت نہیں رہی یا یہ محض محبوبہ کا خیال ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو پی ڈی ایم اب نو ستاروں پر مشتمل ہے۔ آخری منظر میں دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں آگریں گے یا فلم بین فرط غم سے آنسو بہاتے سینما ہال سے رخصت ہوں گے، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے اس تماشے کے انجام میں بہرحال کوئی خیر نہیں۔ پی ڈی ایم اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب رہا یا ناکام اس ہائبرڈ نظام کے چلنے کی توقع نہیں جو عسکری سپرمیسی اور ایک کھلاڑی کی بد مزاج اور شعور سے عاری طبیعت کے ملاپ سے تشکیل دیا گیا تھا۔ یہ حکومت نہیں نعرہ زن احمقوں کی خیالی دنیا کے کردار ہیں جنہیں ہماری پیاری اسٹیبلشمنٹ دو بڑی سیاسی جماعتوں سے نفرت کی وجہ سے اسٹیج پر لائی تھی۔
عمران خان کی حکومت نہیں عسکری تجاوز ہے، وہ پائوں ہیں جو ترقی کی راہ پرتو کیا چلتے، جسم وجاںکو پستیوں میں گراتے چلے جارہے ہیں بہتر ہے انہیں دوبارہ بوٹوں میں سینت کر رکھ دیا جائے۔ وہ آنکھیں ہیں جو کوئی نیا منظر تو کیا دیکھتیں دکھاتیں، آباد گھروں میں بھی بربادی کے مناظر، زکوۃ کی قطاروں میں لگنے کی صورتیں، تخلیق کرتی چلی جارہی ہیں۔ مناسب یہی ہے ان آنکھوں کو عسکری میوزیم میں سنبھال کر رکھ دیا جائے۔ پی ڈی ایم کے انتشار سے اس عوام دشمن حکومت کے دریا برد ہونے کے امکان کی نفی تلاش کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ عمران خان کو سکھ کا سانس مل جائے! محال ہے۔ پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی عمران خان کی ایسی ہی مخالفت کریں گی جیسی کہ ن لیگ اور جمعیت۔ فرق یہ ہوگا کہ ان کی اپوزیشن عمران خان تک محدود ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ ان کی تنقید کا ہدف نہیں ہوگی، جب کہ ن لیگ اور مولانا دونوں کو یکساں ٹارگٹ کریں گے۔
اسٹیبلشمنٹ زرداری صاحب پر اعتماد کرے یہ ممکن نہیں۔ زرداری صاحب اسٹیبلشمنٹ پر بھروسا کریں یہ بھی ناممکن ہے۔ جب سے زرداری صاحب نے پی ڈی ایم کا شکار کیا ہے نہ جانے کیوں یہ شعر باربار خیال میں درآتا ہے:
بوسے لیتے ہیں چشم جاناں کے
ہم ہرن کا شکار کرتے ہیں
زرداری صاحب کی چشم جاناں ان کے مفادات ہیں۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلہ بن کر اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ نہیں دیا اپنے مفادات کو بوسہ دیا ہے۔ مریم نواز اور بلاول کے ایک دوسرے پر حملوں سے جو لوگ نجانے کیا کیا کچھ کشید کرتے چلے جارہے ہیں خاطر جمع رکھیں۔ راتوں رات یہاں محبتیں نفرتوں میں اور نفرتیں محبتوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ عداوتوں اور محبتوں کے یہ اظہار کسی فکر اور اصول سے متعلق نہیں ضرورتیں ان کی بنیاد ہیں۔ زرداری صاحب ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے وہ کسی بھی راستے پر باآسانی جاسکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہ وہ پہلے اقتدار میں آئے تھے اور نہ ہی آئندہ آسکیں گے۔ وہ اوپر سے پی ڈی ایم کے اتحادی نہ رہے ہوں لیکن اندرسے وہ بھی عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے اتنے ہی بے تاب ہیں لیکن ایساوہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اپنے مفاد کے حصول کے لیے کریں گے نہ کہ ن لیگ کا راستہ صاف کرنے کے لیے۔ زرداری صاحب نے اپنے عارفانہ کلام اور پیچ دار تدبر سے پی ڈی ایم کو استعمال کرکے اپنے اوپر دائر کیے گئے مقدمات سے جان چھڑائی ہے۔ عزیر بلوچ بھی اب خلق خدا سے پیار کرنے والے بابا لوگ کے زمرے میں آکر مقدمات کے بھنور سے نکلتا جارہا ہے۔ عسکری پالیسی سازوں پر دبائو ڈالنے کے لیے زرداری صاحب کسی بھی مرحلے میں دوبارہ پی ڈی ایم سے مل جائیں عین ممکن ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک دوسرے پر جو الزامات لگارہی ہیں وہ الزامات نہیں سیاسی دائو پیچ ہیں، سیاست ہے۔ زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن دونوں ہی اس کے ماہر، چھوٹے اور بڑے بھائی ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا دم چھلہ بننا یا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرکے حکومت چلانا نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں ہی اس کے موجد اور بانی ہیں۔ جو ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار تک لے گئی تھی، اسی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے مرزا اسلم بیگ کو محترمہ نے تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا۔جنرل ضیا الحق نے جو نیجو حکومت ختم کی تو اپنی ہی حکومت گرائے جانے کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے نواز شریف ضیا الحق کے ساتھ کھڑے درازی عمر کی دعائیں لے رہے تھے۔ جولائی 2019ء تحریک انصاف کی حکومت نے جنرل باجوہ کو تمغہ جمہوریت دینے کے لیے پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کروائی تھی۔ اگر اسٹیبلشمنٹ تمام تر تحفظات کے باوجود تین تین مرتبہ پی پی اور ن لیگ کی حکومت کو برداشت کرچکی ہے تو تحریک انصاف کے لیے اس کی باہیں زیادہ کشادہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان ایک خالی الذہن حکمران ہیں۔ انہیں حکومت کا سینس ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی عوامی غصے کا نشانہ بنادیا ہے۔
پاکستان کا مسئلہ معیشت ہے۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے بغیر کسی جنگ، دشمن کے حملے، تباہی اور بربادی جس کی شرح نمو تین سال کے اندر 5.8 سے گر کر منفی اعشاریہ چار تک آپہنچی ہے۔ یہ عمران خان کی حکومت کا اعجاز ہے۔ اکیلے عمران خان کا نہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی اس عدیم المثال کارکردگی میں برابر کی شریک ہے۔ معیشت نہ فوج کا میدان ہے اور نہ عمران خان جیسے کرکٹ کے کھلاڑی کا۔ مسلسل ارتقا پزیر عالمی اور علاقائی معیشت کے اسرار ورموز سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہماری فوجی حکومتوں نے داخلی سطح پر کوئی کوشش کرنے اور اہلیت کا مظاہرہ دکھانے کے بجائے امریکا اور عالمی سامراجی اداروں سے ماہرین درآمد کرنے پر تکیہ کیا۔ شوکت عزیز سے لے کر حفیظ شیخ اور رضا باقر تک یہی وہ راستہ ہے معیشت کی استواری کے لیے جس پر چلا گیا۔ موجودہ عمرانی حکومت کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اس پامال راستے پر بھی چلنے میں ناکام ہے۔ تین برس گزرگئے غضب خدا کا ابھی تک نہ تو معاشی فیصلوں میں تسلسل آیا ہے نہ معاشی ٹیم بن سکی نہ مستقل بنیادوں پر وزیر خزانہ کا انتخاب ہوسکا۔ ڈھائی سال میں دو وزرائے خزانہ تبدیل ہوچکے تیسرا وزیر خزانہ کتنے عرصے تک رہے گا نہیں پتا۔ اور چوتھا وزیرخزانہ کون ہوگا اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ چینی قونصل جنرل نے گزشتہ دنوں کہا تھا ’’پاکستان کو ترقی کے لیے مستقل معاشی پالیسیوں کی طرف توجہ دینا ہوگی یہاں ناشتہ کے وقت ایک پالیسی ہوتی ہے اور دوپہر کے کھانے کے بعددوسری‘‘۔
پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو حکومت بھی تو جان کنی کے عالم میں ہے۔ ترجیحات میں ناکامی کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہے اور نہ عمران حکومت۔ اس حکومت کو گرانے کے لیے اب پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں۔ یہ حکومت اپنی ہی ناکامیوں کے بوجھ تلے ختم ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کی عوام دشمن اور مایوس کن کارکردگی کے نتیجے میں عوامی اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ جنرل باجوہ نے پچھلے دنوں پہلے گھر درست کرنے کی بات کی تھی مسئلہ یہ ہے کہ شیخ چلی نہیں گھر چلانے کے لیے ایک باصلاحیت، ملکی سیاست، معیشت اور خارجہ پالیسی کا ادراک رکھنے والی شخصیت کی ضرورت ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی ناکامی کے بعد رائے عامہ ایک مرتبہ پھر نواز شریف کے گرد جمع ہورہی ہے۔ نئی تازہ دم قیادت کا کہیں وجود نہیں۔ اگر ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی طرف رجوع کیا گیا تو اسٹیبلشمنٹ سے پوچھا جاسکتا ہے حضور اس کھیل میں ملک نے کیا پایا، کیا کھویا اور آپ نے کیا سیکھا ہے؟؟