رمضان کی آمد اور ہماری ترجیحات

627

ندا موبائل ہاتھ میں تھامے کپڑوں کی ایک مشہور برانڈ کی جانب سے ابھی ابھی اپ لوڈ ہونے والی ویڈیو دیکھ رہی تھی جس میں دکھایا جارہا تھا کہ یوم پاکستان کے موقع پر ہر آئٹم پر پچاس فی صد رعایت ہے۔ اس نے بہت دلچسپی سے پوری وڈیو دیکھی اور یہ نتیجہ نکالا کے چھ ہزار والا سوٹ تین ہزار میں اور آٹھ ہزار والا تھری پیس سوٹ چار ہزار میں مل جائے گا۔ اس کے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ ’’رمضان المبارک قریب ہے، شب قدر کی مبارک راتیں اور پھر جمعتہ الوداع… موقع اچھا ہے، ابھی سے خریداری کر لی جائے اور وہ بھی سیل پرائس میں‘‘۔ انتہائی سرعت کے ساتھ اس نے یہ وڈیو اپنی بہن اور بھاوج کو شیئر کی تاکہ ایک دوسرے کے مشوروں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کامیاب شاپنگ کی جائے، بہن اور بھاوج فوراً تیار ہوگئیں اور گھر کے قریب ایک آوٹ لٹ میں موجود ہجوم میں، وہ بھی شامل ہوگئیں۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی کپڑوں کی تمام مشہور، برانڈز پچیس سے پچاس فی صد سیل کی خوشخبری دینے لگتی ہیں۔ اشتہارت میں جتنی رعایت دکھائی جا رہی ہوتی ہے فی الحقیقت اتنی ہو یا نہ ہو مگر… شہر کی آوٹ لٹس کے اندر مردو خواتین کا بے پناہ ہجوم ایسے امڈ امڈ کر آتا ہے گویا مفت میں مال بٹ رہا ہو۔
بہت سی خواتین ماہ مبارک کی آمد سے ایک ماہ قبل ہی عید کی تیاری کے حوالے سے کمر کس لیتی ہیں۔ میں خود شاہد ہوں ایسی خواتین کی جو رمضان المبارک سے قبل مارکیٹوں کے چکر لگا لگا کر خود کو ہلکان کر لیتی ہیں۔ کوئی بچت بازار، کوئی آوٹ لٹ اور کوئی مال ایسا نہیں رہ جاتا جہاں انہوں نے نہ جھانک لیا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں ماہ مبارک کی آمد سے قبل کی اس بھاگ دوڑ کے حوالے سے بیش تر خواتین کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ رمضان میں وقت گھر پر گزاریں گی۔ مگر اس میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ کسی کے پیش نظر وہ جدوجہد نہیں ہوتی جس کا رمضان متقاضی ہے اور جس کا درس نبیؐ کے اسوۂ طیبہ سے ملتا ہے۔ ادھر سوشل میڈیا پر تمام کونگ چینلز سحر و افطار کے حوالے سے طرح طرح کی ترکیبیں آپ لوڈ کرنے لگتے ہیں۔ گویا ترکیبوں کی برسات ہونے لگتی ہے۔ جن کے سلوگنز بھی بڑے زبردست ہوتے ہیں مثلاً ’’رمضان میں لچھے دار پکوڑے بنائیں اور سب سے داد پائیں‘‘۔ ’’یہ رول ابھی سے بنا کر فریز کر دیں اور پورے رمضان اس کے مزے لیں‘‘۔ ’’پہلی سحری میں یہ پراٹھے بنا کر سب کے دل جیت لیں‘‘۔
ماحول ایسا بن گیا ہے کہ ہر فرد اس دوڑ میں سرپٹ بھاگ رہا ہے۔ اور ہر ایک کی نظروں سے وہ اعلیٰ و ارفع مقصد اوجھل ہے جس کے لیے یہ مقدس مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے سہانے سپنے دکھا کر برسر اقتدار آنے والی ہر حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے طفیل وطن عزیز میں رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اشیائے صرف کی قیمتوں میں ہو شربا اضافے کی نویدیں ملنے لگتی ہیں۔ تین اپریل کی اخباری اطلاع کے مطابق: ’’رمضان سے قبل مہنگائی کا طوفان۔ یوٹیلیٹی اسٹورز کے نرخ بڑھ گئے۔ چینی، گھی، دودھ، دہی، آٹا، آلو اور ٹماٹر بھی مہنگے، ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 21.17 فی صد پر پہنچ گئی۔ چنانچہ گھر کی کفالت کرنے والے اس فکر میں غلطاں ہو جاتے ہیں کہ اس ہوشربا اضافے سے قبل جتنا ممکن ہو سکے اشیائے صرف سے گھر بھر لیں فی الحقیقت دیگر تمام مسلم ممالک میں رمضان المبارک کے حوالے سے تاجر قیمتوں میں رعایت دیتے ہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم ممالک میں بھی مسلم کمیونٹی کے لیے اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ مختلف ترغیبات اور پیکیج لائے جاتے ہیں۔ اگر یہی سہولتیں وطن عزیز میں بھی ہوں تو شاید صورتحال کافی مختلف ہو اور وہ بھاگ دوڑ نہ کرنا پڑے جو رمضان سے قبل اشیائے صرف کو ذخیرہ کرنے کے لیے کرنا پڑتی ہے۔
آقائے دو جہاںؐ آمد رمضان سے قبل اپنے خطبوں میں رمضان کی اہمیت و فضیلت کا کثرت سے ذکر فرماتے تاکہ اس کی رحمتوں کے حصول کا شوق پیدا ہو۔ نبی مہربانؐ شعبان میں کثرت سے روزے رکھ کر رمضان المبارک کا استقبال فرماتے۔ رحمتوں کا مہینہ ایک بار پھر سایہ فگن ہونے کو ہے۔نبیؐ کے فرمان کے مطابق وہ ماہ جس کی آمد پر فرشتے ہر دن اور ہر رات صدائیں لگاتے ہیں۔ ’’اے خیر کے طالب متوجہ ہو اور آگے بڑھ اور اے شر کے طالب رک جا‘‘۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
رحمتوں اور مغفرتوں کی لوٹ سیل لگنے والی ہے۔ نہ صرف سیل ہے بلکہ آفرز بھی ہیں کہ نفل کا ثواب فرض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر گنا بڑھا کے دیا جا رہا ہے۔ جنت کے تمام در وا ہونے والے ہیں جنت سے نجات پانے کے لیے صدائیں لگنے والی ہیں۔ آقا کے ایک فرمان کے مطابق: ’’بلاشبہ ہر سال ماہ رمضان میں جنت کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے‘‘۔ (بحوالہ طبرانی) ضروری ہے کہ رمضان کی آمد سے قبل کی تمام تر تیاریوں میں روحانی تیاری کا اہتمام بھی شامل کیا جائے۔ مبادہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مادیت سمیٹنے میں اس قدر محو ہو جائیں کہ رحمتوں اور برکتوں کے فیضان کا سمندر بہتا رہے مگر ہماری جھولی اس سے تر بھی نہ ہو سکے۔