لائن

351

لائن بھی بڑا ہمہ جہت قسم کا چہار حرفی لفظ ہے جسے سنتے یا پڑھتے ہی ذہن میں مختلف شبیہیں ابھرنے لگتی ہیں۔ کسی کے ذہن میں فوراً ہی ’’شیر‘‘ کا تصور آتا ہے تو کسی کے دماغ کی سوچ ’’ضرورت مندوں‘‘ کے لامتناہی سلسلے کی طرف چلی جاتی ہے۔ کوئی کاغذ پر ایک سطر کے بارے میں سوچتا ہے تو کوئی ریل کی پٹڑیوں کے تصور میں یوں کھو جاتا ہے کہ یہ ریلوے لائن ’’اْس‘‘ کے شہر سے بھی گزرتی ہوگی۔ لائن کا لفظ ہمارے ہاں زباں زدعام ہے۔ یہ انگریز کی میراث ہونے کے باوجود اردو بولنے والوں کی زبان پر چڑھ چکا ہے۔ ہم نے اس لفظ کو ایسے ایسے مقامات پر قابل استعمال بنا دیا ہے جہاں اس کے ’’وارثوں‘‘ کو گمان بھی نہیں گزر سکتا کہ لائن کا استعمال یوں بھی ممکن ہو سکتا ہے مثلاً: ’’لائن کاٹنا‘‘، یہ ترکیب اس وقت بولنے یا لکھنے میں استعمال ہوتی ہے جب کسی کا ’’بیڑہ غرق‘‘ کرنا مقصود ہویا اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو چکی ہو۔ اسی لیے جب دو افراد خصوصاً صنفی اختلاف کے حامل دوستوں کے مابین تلخیاں پیدا کرنے میں کامیابی قدم بوسی کر لے توبغلیں بجاتے ہوئے اس ترکیب کو یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ ’’بھیا ہم نے بھی ایسی چال چلی کہ دونوں کی لائن ہی کٹ گئی‘‘۔ ’’لائن مارنا‘‘ بھی ہماری ’’جدید بول چال‘‘ کا حصہ ہے جس کا مطلب کسی من پسند سے پینگیں بڑھانا ہے۔ ’’لائن ماری‘‘ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری و ساری رہتا ہے جب تک کوئی لائن کاٹنے والا مداخلت نہ کر بیٹھے۔
’’لائن ملانا‘‘ کی ترکیب ہمارے نوجوانوں اور نستعلیق بڈھوں میں عام ہے۔ یہ بڈھے اس کا استعمال ٹیلی فون کے ذکر تک ہی محدود رکھے ہوئے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’ذرا فلاں صاحب سے لائن ملائیے‘‘۔ اگر فون نہ ملے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’لائن نہیں مل رہی‘‘۔
’’لائن ملانا‘‘ نوجوانوں کے لیے لائن مارنے کے مترادفات میں شامل ہے۔ اسی لیے اگر وہ ایک دوسرے کو دوستی کے ’’چنگل‘‘ میں پھنسانے کی تگ و دو میں مصروف ہوں تو کہا جاتا ہے کہ وہ لائن ملانے کے چکر میں ہیں۔
ویسے اردو بڑی فیاض زبان ہے۔ اس میں متعدد ایسے الفاظ موجود ہیں جن کے کئی معنی ہیں اور ایسے کئی معنی ہیں جن کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی فیاض زبان میں لائن کو خط بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی بڑی اکثریت انہیں لکھواتی ہے جبکہ بعض لوگ خود بھی لکھ لیتے ہیں۔ اس سے قبل اگر ’’خوش‘‘ کا سابقہ لگادیا جائے تو یہ ’’خوبصورت تحریر‘‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب میں قیام کے دوران جب ہمارے علم میں اضافہ ہوا تو پتا چلا کہ ’’خط‘‘ کے بارے میں تمام تر تحقیق اور جستجو کے باوجود ہمارا علم ناقص ہی تھا۔ اس لفظ کے وسیع تر استعمال سے ہم نابلد تھے کیونکہ ’’خط‘‘ کا مطلب مسافر وین یا منی بس وغیرہ بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ شاہراہ یا پختہ راستے کو بھی خط کہا جاتا ہے۔
ہمارے وطن عزیز میں ایک ایسی قسم کے خط بھی ہوتے ہیں جو ’’پکڑے‘‘ جاتے ہیں اور یوں مستقبل کے حسین خواب دیکھنے والوں کی دنیا اجڑ جاتی ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ ہمارے ہاں مستقبل کے بارے میں خواب دیکھنے پر پابندی ہے، ایسا بالکل نہیں بلکہ ہم تو خواب دیکھنے اور دکھانے کے ماہر ہیں۔ ہمارے اکثر سیاستداں عوام کو خواب دکھاتے ہیں، ان کا دل بہلاتے ہیں اور عوام بہل جاتے ہیں لیکن کسی کو غلط فہمی کا شکار ہو کر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر معاشرے کی کچھ اقدار ہوتی ہیں، اصول و قواعد ہوتے ہیں۔ اسی طرح مستقبل کے خواب دیکھنے کے بھی کچھ قواعد ہیں جن کے مطابق مستقبل کے بارے میں ایک آدمی، ایک خواب دیکھ سکتا ہے، دو آدمی دو خواب دیکھ سکتے ہیں مگر دو ’’شخصیات‘‘ مستقبل کے لیے مشترکہ یا ایک خواب نہیں دیکھ سکتیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ صریحاً ممنوع، ناپسندیدہ اور مروجہ قواعد کی سنگین خلاف ورزی شمار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے مستقبل کا مشترکہ خواب دیکھنے والے فریقین جب چوری چھپے ایک دوسرے کو اپنے جذبوں سے تحریراً آگاہ کرنے کے لیے خط لکھتے ہیں تو یہ ’’پکڑے‘‘ جاتے ہیں اور یوں اکثر و بیش تر یہ خواب چکنا چور ہی ہو جاتے ہیں۔
اردو کی بلاغت کا عالم دیکھیے کہ خط کا لفظ حجاموں کے ہاں بھی اس وقت سننے میں آتا ہے جب کوئی گاہک آکر نائی سے کہتا ہے کہ ’’بھائی ذرا خط بنا دینا‘‘۔
لائن کو اردو میں لکیر بھی کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے ’’فقیروں‘‘ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی اکثریت کسی نہ کسی پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ آپ ان سے استفسار کریں کہ کیا آپ کی پارٹی نے یا آپ کی پارٹی کے فلاں رہنما نے فلاں فلاں غلطیاں نہیں کیںتو جواب میں ’’ہاں‘‘، ’’آہو‘‘ یا اس کے ہم معانی الفاظ سننے کوملیں گے۔ پھر آپ ان سے پوچھیں کہ اب آپ کا اس رہنما کے بارے میں کیا خیال ہے تو جواب ملے گا کہ ’’خواہ کچھ بھی ہو، ہمارا لیڈر جیوے ہی جیوے‘‘۔ اس لیے ایسی ہستیوں کو ’’لکیر کے فقیر‘‘ کہا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں صرف لکیر کے فقیر ہی نہیں بلکہ ’’فقیروں کی لکیر‘‘ بھی موجود ہے۔ اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ اپنی سائیکل، موٹر سائیکل یا کارپر سوار ہوکر کسی بھی شاہراہ کے ٹریفک سگنل پر رکیں۔ فوراً ہی ایک فقیر ’’بھنبھناتا‘‘ ہوا آپ کے آگے دست سوال دراز کردے گا۔ آپ اس کے ہاتھ میں 5کا سکہ رکھ دیں پھر دیکھیں، آن کی آن میں آپ کے سامنے ’’فقیروں کی لکیر‘‘ آن موجود ہوگی۔ آپ کی تمام جیبیں خالی ہو جائیں گی مگر ان فقیروں کی لکیر مختصر نہیں ہوگی۔ حتیٰ کہ آپ قلاش ہو کر فقیروں کی اس لکیر میں شامل ہونے پر مجبور ہونے لگیںگے۔
لائن کے ہم معانی ایک لفظ ’’قطار‘‘ بھی ہے۔ یہ ایسی لائن ہوتی ہے جس میں پیسے دینے والے بھی کھڑے ہوتے ہیں اور پیسے لینے والے بھی۔ یہ اکثر بینکوں کے باہر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں بجلی، گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز جمع کرانے والے ہاتھ میں پیسے لیے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور پیسے بینک کے حوالے کر کے خالی ہاتھ لوٹتے ہیں جبکہ پنشن لینے والے خالی ہاتھ قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اور بینک سے پیسے لے کر لوٹتے ہیں۔
ایک قطار وہ بھی ہوتی ہے جس میں اپنی باری لینے کے لیے لوگ انتظار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسی قطار کی ایک عام فہم مثال اقتدار کی باری لینے کے لیے لگائی جانے والی لائن ہے۔ یہ عموماً خاندانوں پر مبنی ہوتی ہے اور نسل در نسل چلتی ہے۔ ہم نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا تو باری لینے والوں کی لائن لگی دیکھی۔ اس میں پہلے ابا کو دیکھا، پھران کے بیٹا بیٹی کو دیکھنے کا موقع ملا اور اب ہماری ’’خوش قسمتی کی انتہا‘‘ دیکھیے کہ اب ہم ان کی اولادوں یعنی تیسری پشت کو منتظرین ِ اقتدار کی قطار میں کھڑا دیکھ رہے ہیں۔ ایک جانب وہ ہیں جو اقتدار میں آنے کے لیے قطار میں ہیں اور دوسری جانب ہم ہیں جو اپنے ووٹوں سے انہیں اقتدار میں لاتے ہیں پھر بھی کسی شمار و قطار میں نہیں۔