فنگر کیری

433

شعور سنبھالنے کے بعد ہی سے سنتے آئے ہیں کہ انسان پیدا ہونے کے بعد سے موت کے منہ میں داخلے سے قبل تک سیکھنے کے عمل یعنی آموزش سے گزرتا رہتا ہے نیز یہ کہ معاشرہ سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ وہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ اس دوران مختلف مرحلے آتے ہیں مثلاً عمر کے ابتدائی دنوں میں بچہ بہت کچھ سیکھتا ہے مگر اس کی سمجھ میں کچھ زیادہ نہیں آتا اور نہ ہی وہ کچھ کر پاتا ہے۔ نوخیز عمری میں وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اسے سمجھ میں آنے لگتا ہے مگر وہ اس پر عمل درآمد کا اختیار نہیں رکھتا۔ پھر اس کی عمر مائل بہ تنزل ہوتی ہے۔ اس مرحلے پر وہ جو کچھ سیکھتا ہے، کر ڈالتا ہے اور سمجھ بعد میں آتا ہے۔ عمر کے آخری حصے یعنی پیرانہ سالی میں وہ جو کچھ سیکھتا ہے وہ اس کی سمجھ میں خوب آتا ہے مگر وہ اس پر عملدرآمد کرتے ہوئے ڈرتا ہے۔ اس کی دو وجوہ ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس میں ’’نئی آموزش‘‘ پر عمل کرنے کی صلاحیت بعض اوقات کم ہو جاتی ہے اورگاہے بالکل ہی مفقود ہو چکی ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اس آموزش پر عمل کرنے لگے تو اسے خدشات کا جم غفیر گھیر لیتا ہے کہ ’’کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ معاشرہ ایسی ایسی باتیں سکھا دیتا ہے جو انسان کو کوئی درس گاہ یا کوئی استاد نہیں سکھا سکتا۔ اب روشن خیالی ہی کو لے لیں۔ وطن عزیز میں ایسا کوئی ادارہ، کوئی انسٹی ٹیوشن، کوئی درس گاہ یا مادر علمی نہیں جو روشن خیالی کے ’’شارٹ یا لانگ کورس‘‘ میں داخلہ دیتی ہو۔ یہ کورس صرف اور صرف معاشرہ ہی کراتا ہے۔ جو شخص روشن خیالی کا لانگ کورس کرنا چاہے اسے چاہیے کہ معاشرے میں گھل مل جائے، ’’روڈ ماسٹری‘‘ یعنی ’’بے مقصد مٹرگشت‘‘ کرے۔ بس اسٹاپس پرجا کھڑا ہو اور وہاں’’ کبھی نہ آنے والی بس‘‘ کا انتظار کرنے کی عادت ڈال لے۔ اس طرح چند ہفتوں ہی میں اس کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوگی اور اسے اپنے اہل خانہ کی جانب سے روشن خیال ہونے کے ’’طعنے‘‘ سننے کو ملنے لگیں گے جو اس کے اس کورس میں کامیاب ہونے کی دلیل ہوگی۔
اگر کسی کے پاس وقت کم ہو اور اسے کم وقت میں روشن خیال بننا ہو تو اسے ’’شارٹ کورس‘‘ کرنا پڑے گا۔ اس پر ذرا لاگت زیادہ آئے گی۔ شارٹ کورس کے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی شہر کے کھاتے پیتے علاقے میں پہنچ جائے اور وہاں کسی شاپنگ مال،کیفے ٹیریا یا کسی 4یا 5ستارہ ہوٹل میں جا گھسے۔ شارٹ کورس کے لیے مضبوط دل اور طاقتور اعصاب کا مالک ہونا لازمی ہے کیونکہ اس کو ایسے مناظر دیکھنے پڑ سکتے ہیں جو ’’اندھیر خیال‘‘، مفلس، روٹی کے لیے ترسنے والوں، فاقہ کشوں، جھونپڑ پٹی کے رہائشیوں، گاؤں گوٹھ کے باسیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے۔ شارٹ کورس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ امیدوار زیادہ یا بار بار آنکھیں جھپکنے کا عادی نہ ہو کیونکہ کورس کے دوران ایک منزل ایسی بھی آ سکتی ہے کہ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں اور حد یہ کہ جھپکنا بھی بھول جائیں۔
ہمیں حیرت تو اس بات پر ہے کہ جب ہمارے ملک میں سب سے بڑا استاد یعنی معاشرہ تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بھرپور انداز میں موجود ہے پھر ناخواندگی کی شرح زیادہ کیوں ہے؟ ہمیں دیکھیے، عمر کی اس ’’خوفناک‘‘ منزل کو پہنچنے کے باوجود حالیہ دنوں میںہم نے بھی فرنگی لغت کے چند آسان الفاظ کا نایاب استعمال سیکھا ہے۔ اس آموزش سے قبل اگر ہم سے کوئی پوچھ لیتا کہ ’’انگلی پکڑ کر چلنے‘‘ کو فرنگی زبان میں کیا کہتے ہیں تو ہم جواب میں بغلیں ہی جھانکتے مگر آج ہم سینہ تان کر چلتے ہیں کہ ہمیں انگلی پکڑ کر چلنے کی انگریزی آتی ہے جو ہمیں معاشرے نے سکھائی ہے۔ اجمال اس آموزش کا یہ ہے کہ ہم کراچی سے لاہور جانے والے ’’پیا‘‘ یعنی پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہونے کے لیے روانگی لاؤنج کے گیٹ پر لگی قطار میں کھڑے تھے۔ ایک معصوم مگر انتہائی شرارتی بچہ بار بار قطار سے نکل کر جہاز میں داخل ہونے کے لیے گیٹ کی جانب دوڑتا۔ ’’پیا‘‘ کا عملہ اسے واپس بھیج دیتا۔ اس شریر کی والدہ جو کراچی میں اپنے میکے سے پیا کے دیس ’’لاہور‘‘ سدھار رہی تھیں، انہیں بھی قطار میں کھڑے رہنا پسند نہیں تھا اسی لیے وہ قطار سے علٰیحدہ ہو کر زور سے پکارتیں، ’’سنی! ادھر دیکھیں، آپ کی مما کہاں کھڑی ہیں؟ سنی خواہ ان کا کہنا مانتا یا نہ مانتا مگر قطار میں کھڑے لوگ ان کا کہنا ضرور مانتے۔ سنی تو تھا ہی انتہائی شریر، وہ ٹس سے مس نہ ہوتا۔ مما بے چاری ساری قطار عبور کر کے بچے کو پکڑ کر لاتیں اور شرارتی سنی پھر دوڑتا ہوا گیٹ پر ’’پیا‘‘ کے عملے کو پچھاڑ کر جہاز میں جانے کی کوشش کرتا۔ اس کی مما مسکرا کر رہ جاتیں۔ وہ تو شکر ہے کہ پرواز اندرون ملک کی تھی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ طیارہ ’’پیا‘‘ یعنی قومی ائر لائن کا تھا۔ اگر معصوم سنی بیرون ملک بھی ایسی شرارتیں کرتا تو اس پر ’’دہشت گردی‘‘ کا الزام عائدکردیا جاتا۔
ہمیں اس بچے کے ذوقِ انتخاب پر رونا آ رہا تھا جو مما کو چھوڑ چھوڑ کر گیٹ کی طرف جا رہا تھا۔ مما اپنے وجود کی طرح اس قدر ’’لچکدار‘‘ اعصاب کی مالک تھیں کہ ایک دفعہ بھی انہوں نے جھنجلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پھر مما بولیں، ’’سنی! ادھر دیکھیں‘‘۔ قطار میں کھڑے ہم جیسے سبھی لوگوں نے مڑ کر دیکھا۔ اس کے بعد مما نے کہا کہ ’’سنی! مما کی ’’FINGER CARRY‘‘ کریں‘‘۔ انجام یہ ہوا کہ سب لوگوں کی ’’پیا‘‘ کے عملے سے توجہ ہٹ گئی۔ عملے کے ارکان نے صورتحال کو بھانپ کر کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کیا اور سنی سے کہا کہ مما کو لے کر آئیں۔ سنی دوڑتا ہوا گیا اور مما کی ’’فنگر کیری‘‘ کرتا ہوا پہنچ گیا۔ عملے کے ارکان نے دونوں کے بورڈنگ پاس قطع کر کے انہیں جہاز میں بھیج دیا۔ لاؤنج کا ماحول سونا ہوگیا اور لوگ صرف اور صرف عملے کی جانب متوجہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔ یوں ہمیں معاشرے نے انگلی پکڑکر چلنے کی انگریزی سکھا دی۔
مشکل یہ ہے کہ ہم اپنے اوپر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ دوسروں کی پروا نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنے بجائے اپنے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں پر توجہ دینا شروع کردیں تو ناخواندگی کو ہمارے وطن میں کہیں سر چھپانے کی جگہ کبھی نہیں مل سکے گی۔