جاہلیت خالصہ کے الحادی اعتقادات (آخری حصہ)

354

Evald llyenkov کے مطابق سائنٹفک میتھڈ وہ نظریاتی منہج ہے جو ہمیں فطرت اور معاشرت کے تمام ارتقائی قوانین سے آگاہ کرتاہے۔ سائنٹفک میتھڈ ہی مادہ پرستانہ نظریہ (جاہلی) علمیت ہے۔ مادہ پرستانہ نظریہ علمیت کے مطابق سائنٹفک میتھڈ وہ واحد ذریعے ہے جس سے ہم انسانی اور کائناتی وجود کی حقیقت دریافت کر سکتے ہیں۔ سائنٹفک میتھڈ ان آفاقی ہیئتوں کی نشاندہی کرتا ہے جو فکر (روح) اور وجود (جو مادی ہے) کو مربوط کرتی ہیں۔ النیلکو کے مطابق نظریاتی تعمیر عمل درجہ بند ہے اور نظریاتی درجہ بندی نفسی جبلتوں کی پابند نہیں بلکہ سائنسی تجرباتی اطلاعات کی ترتیب سے متعین کی جاتی ہے۔ یوں سائنٹفک میتھڈ کے ذریعے نفس اور خواہشات اور کائناتی حقائق کا ارتباط مرتب کیا جا سکتا ہے۔ بقول لینن سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے ذریعہ ہم انسانی وجود اور کائنات کو سمجھ بھی سکتے ہیں اور نفسانی خواہشات کے عالمی تغلب کو ممکن بھی بنا سکتے ہیں۔ اس عمل کو جاری رکھنے سے وجود کی مقصدیت بھی عیاں ہوتی ہے۔ مارکس ڈارون کا شیدائی تھا اور اس کے خیال میں تمام حیوانوں کی طرح انسان کا اصل مقصد اپنی حیات کو طول دینا اور اپنی خواہشات نفسانی کے پورے کرتے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ مارکس کے خیال میں سائنٹفک میتھڈ بالخصوص نظریہ ارتقا سے یہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
اسلامی تنقید: علما کی خدمت میں چند سوالات سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے نتیجے میں انسانیت مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ادویاتی صنعت اور ایلوپیتھک میڈیسن کے پھیلائو کے نتیجے میں نئی نئی وبائیں کروڑوں انسانوں کو ہلاک کر رہی ہیں۔ ماحولیاتی ابتری، موسمیاتی بحری اور فضائی نظام کو ناقابل برداشت حد تک کثیف کر رہا ہے۔ اطلاعاتی اور مواصلاتی بحران نے حقیقتوں کو سراب )بنا دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ سامراجی تغلب نے تقریباً پوری نوع انسانی کو آزادی یعنی ابلیس پرستی کے شکنجہ میں کس لیا ہے۔ یہ سب سائنسی طریقے کے عالمی اطلاق کا نتیجہ ہے۔ جاہلیت خالصہ کے اس عالمی غلبہ کو ختم کرنے کے لیے اس کا اسلامی نقد مرتب کرنا ضروری ہے۔
یہ جماعت سے وابستہ علمائے کرام اور صوفیائے عظام کا منصب ہے کہ وہ جاہلیت خالصہ (سائنٹفک میتھڈ) کا اسلامی نقد مرتب فرمائیں۔ لہٰذا جمعیت اتحاد علما کے سامنے مندرجہ ذیل سوالات پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں تاکہ ان کے جوابات کی روشنی میں جماعت اس فکر کو جاہلیت خالصہ ثابت کرنے کی طرف ابتدائی کام کر سکے۔ ۱۔ ڈیکارٹ کے قول ’’میں سوچتاہوں لہٰذا میں ہوں‘‘ کی شرعی حیثیت ۲۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’انسان حقیقت (nomenon) تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔ ۳۔ کیا علم کی بنیاد صرف نفسی احساست ہیں۔ ۴۔ کیا مطلوب طرز زندگی کا ادراک علم کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ۵۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’مذہبی علمیت ، علمیت کے دائرہ سے خارج ہے‘‘۔ ۶۔ اس دعویٰ کا نقد کہ ’’اسلامی ریاست کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی جا سکتی‘‘۔ ۷۔ اس مفروضہ کا نقد کہ تمام مذہبی علمیت واہمہ ہے۔ ۸۔ اس مفروضہ کا نقد کہ علم صرف احکامات نفسانی کی تعمیل کا ذریعہ ہے۔ ۹۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’پوری کائنات فکر فراقی ہے‘‘۔ ۱۰۔ اس مفروضہ کا نقد کہ ’’سائنسی منہج ماورائے احساس حقائق کو پہچاننے کا ذریعہ ہے‘‘۔ ۱۱۔ حق تاریخ انسانی میں ریشنلٹی کے ذریعہ اجاگر ہوتا ہے، کی تنقید۔ ۱۲۔ ارتقائے فکر کا واحد ذریعہ پیداواری عمل ہے، کی تنقید۔ ۱۳۔ پیداواری بڑھوتری، فکر کی درستی کا واحد ذریعہ ہے، کی تنقید۔ ۱۴۔ سائنٹفک میتھڈ کے ذریعہ ہی ایک ایسی طرز حیات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جو بندگی نفس امارہ کو ممکن بنا سکے۔
۱۵۔ تاریخ کی مادی تعبیر کا نقد۔ ۱۶۔ اس عقیدہ کا نقد کہ روح نفسانی جبلتوں کا پرتو ہے۔ ۱۷۔ سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے ذریعہ کائناتی تسخیرممکن ہے۔ ۱۸۔ اس عقیدہ کا نقد کہ سائنٹفک میتھڈ کے ذریعہ تمام فطری، مادی اور روحانی قوانین دریافت کیے جا سکتے ہیں۔ ۱۹۔ سائنٹفک میتھڈ کے اطلاق کے ذریعہ وجود اور کائنات کی حقیقت دریافت کی جا سکتی ہے۔ ۲۰۔ اس مفروضہ کا نقد کہ نظریاتی درجہ بندی نفسانی جبلتوں کے تابع نہیں ہوتی۔ ۲۱۔ انسان ایک حیوان ہے جس کا مقصد حیات صرف دنیاوی زندگی کو طول دینا اور زیادہ سے زیادہ مادی لذات کا حصول ہے کی مکمل تنقید۔