فلسفہ ٔ زرداری کی فتح

347

انتخابی مہم کے دوران سینیٹ انتخابات کا بازار پوری طرح سجا رہا۔ بھائو تائو کرنے والے میدان میں دندناتے رہے۔ کروڑوں روپے کی تھیلیاں اُٹھائے کاروباری شخصیات نے اسلام آباد کا رخ کر لیا تھا۔ دارالحکومت کے پوش علاقوں کے بنگلوں اور مارکیٹوں میں قائم چائے خانوں کی رونقیں دوبالا رہیں۔ حکومت کو اسٹریٹ پاور کے ذریعے گھر بھیجنے میں ناکام ہونے والی اپوزیشن نے پارلیمنٹ سے جاتے ہوئے قدم اچانک روک کر ایوانوں کے اندر حکومت سے دودو ہاتھ کرنے کا اچانک فیصلہ کیا اور نئے دانہ ٔ دام کے ساتھ میدان میں آدھمکی۔ اس محفل کی سب سے نمایاں شخصیت آصف علی زرداری ہیں۔ جو اسم بامسمیٰ ہیں۔ پیسہ کمانے کے ہنر میں طاق ہیں۔ خدا جانے وہ کون سا منتر ہے جسے پڑھ کر پھونکیں تو کورے کاغذ کو بھی ڈالر بنادیتے ہیں۔ یہ فن مسلم لیگ ن کی قیادت پر بھی ختم ہے۔ پی ٹی آئی بھی اسی کلچر کی خوگر ہے۔ مگر آصف علی زرداری کی تو بات ہی اور ہے وہ اس فن میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ان کی اس طرز سیاست کو سمجھنے کے لیے شاید مستقبل میں سیاسیات کے طلبہ کو تحقیقی مقالے اور مضامین لکھنا پڑیں گے کیونکہ زرداری صاحب نے پیسہ کمانے کو ایک سائنس بنادیا ہے۔ اپنی شخصیت کے ان کمالات کے ساتھ آصف زرداری خرابی ٔ صحت کی تمام کہانیوں اور افسانوں کو جھٹک کر اسلام آباد میں آکر ڈیرہ جمائیں تو حکومت کے لیے خطرہ کی گھنٹی بج اُٹھنا لازم ہے۔ آصف زرداری کی سینیٹ انتخابات میں دلچسپی دیکھ کر بڑے بڑوں کی توجہ ان کی جانب مبذول ہونا لازمی ہے۔ شاخ بدلنے کے لیے بے تاب تحریک انصاف کے پنچھی بھی بے ساختہ اس جانب للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہوتے رہے۔ ایسے میں آصف زرداری نے اسلام آباد کی نشست پر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو میدان میں اُتار کر حکومت کو اس صورت حال سے دوچار کیا۔
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے یا دیکھیں اِدھر پروانہ آتا ہے
اس فیصلے نے حکومت کو ایک امتحان گاہ میں لاکھڑا کیا۔ ایک طرف مال کی چمک کے کمالات کا خوف تو دوسری طرف ڈھائی برس کی بے اعتنائی کا شکار ہونے والے ارکان کے رویے حکومت کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھے۔ آصف زداری کے ’’گیلانی کارڈ‘‘ کے بعد اتنا ہوا کہ حکومت نے اپنے بیک بنچرز اور پچھلی صفوں میں دُبکے اور ناراض بیٹھے لوگوں تک رسائی کا فیصلہ کیا۔ جنہیں عام حالات میں عمران خان سے خالی بسکٹ کی توقع بھی نہیں رہی تھی انہیں کم ازکم ایک دو لنچ اور ڈنر بھی مل کر اور وزیر اعظم سے شرف باریابی بھی حاصل ہوا۔ عمران خان نے حکومتی اور اتحادی ارکان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ سینیٹ الیکشن نہ ہوتا تو شاید یہ ارکان اگلے ڈھائی برس بھی اس سعادت سے محروم رہتے۔ حکومت نے سینیٹ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے اوپن بیلٹنگ میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر پہلے اپوزیشن اور بعدازاں الیکشن کمیشن نے اس عمل میں حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کیا یوں معاملہ راہنمائی کے لیے عدالت عظمیٰ میں چلاگیا۔ عدالت عظمیٰ نے اوپن بیلٹنگ کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر اپنا محفوظ فیصلہ سنادیا ہے جس کے تحت سینیٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری ہی سے ہوں گے۔ مگر الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہوگی کہ ووٹنگ کے عمل کو شفاف بنایا جائے۔ تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں مگر ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا۔
صدر عارف علوی نے سینیٹ کے انتخابات خفیہ کے بجائے اوپن بیلٹنگ کے ذریعے کرانے کا آرڈی ننس جاری کیا تھا مگر قانون ساز اداروں میں اکثریت نہ ہونے اور اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے قانون منظور نہ کرایا جا سکا۔ عدالت نے ’’سب کا بھلا سب کی خیر‘‘ یا ’’وِن وِن‘‘ پوزیشن سے نواز کر ایک درمیانی راستہ نکالا۔ عدالت نے جہاں الیکشن کے عمل کو شفاف بنانے کی ہدایت کی وہیں آئین میں درج طریقہ کار پر عمل درآمد کرنے کی رائے بھی ظاہر کی۔ پاناما کیس کے فیصلے کی طرح حکومت اور اپوزیشن اس کی من پسند تشریح کرکے ڈھول تاشے بجاتے رہے۔ اپوزیشن کے خیال میں عدالت نے اوپن بیلٹنگ کا موقف مسترد کردیا جبکہ حکومت کا کہنا تھا کہ عدالت نے خفیہ رائے شماری کا طریقہ بے بدل نہیں کہہ کر اوپن بیلٹنگ کے حق میں فیصلہ سنادیا ہے۔ جس کے بعد گیند الیکشن کمیشن
کی کورٹ میں چلی گئی۔ الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کے عمل کو شفاف بنانے میں چنداں دلچسپی نہیں لی اور نظام ِ کہن کو جاری رکھنے میں معاونت کا راستہ اختیار کیا۔ خفیہ رائے دہی کا وہی پرانا طریقہ اپنایا گیا جس نے سیاست اور جمہوری ایوانوں کو بازار بنا رکھا ہے۔ نتیجہ وہی نکلا جو نوشتہ ٔ دیوار تھا۔ انتخابات سے پہلے سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے پی ٹی آئی کے لوگوں کو ووٹ خراب کرنے کا طریقہ بتاتے پائے گئے۔ بعد میں اسی طریقہ کار پر عمل ہوا۔ یوسف رضا گیلانی جیت گئے اور حفیظ شیخ کو شکست ہو گئی۔ حکومتی نمائندے کی اس انداز کی شکست بہت سوں کے لیے غیر متوقع تھی مگر آصف زرداری کی سیاست کو سمجھنے والے جانتے ہیں یہ اس طرح کی کامیابیاں ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں۔ حقیقت میں یہ دو فلسفوں کے درمیان معرکہ ہوا اس میں عمران خان کا فلسفہ ہار گیا اور آصف زرداری کا فلسفہ جیت گیا۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ پرت در پرت کھلتا چلا جائے گا۔ عمران حکومت کی بنیادیں اس نتیجے سے ہل کر رہ گئی ہیں مگر حقیقت میں عمران خان کی حکومت روز اول ہی سے شاخ ِ نازک پر قائم آشیانہ رہی ہے۔ حالات کے جبر کے نتیجے میں بننے والے اتحادیوں اور نظریہ ضرورت کی بنیاد پرکھڑی یہ حکومت پہلے دن ہی سے لڑکھڑاتی رہی ہے۔ اب اگر حکومت لڑکھڑا کر گرجاتی ہے جس کا سردست امکان نہیں تو اس میں اچنبھا نہیں ہونا چاہیے مگر عمران خان کی سیاست ختم ہوجائے اور وہ خاموش ہو کر بنی گالہ میں بیٹھ جائیں گے یہ اسی طرح ایک خیال خام ہے جس طرح انہیں اصغر خان بن جانے کے طعنے اور پیش گوئیاں ناکام ثابت ہوئے تھے۔