استحکام خاندان استحکام معاشرہ

295

مرد ہو یا زن، یہ فطری امر ہے کہ اسے خلوص بھرے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دن بھر کی تھکا دینے والے معمول سے چور چور ہوتا بدن اور طعن و طنز سے لبریز سماعتوں سے جب محبت بھرے چند جملے ٹکراتے ہیں تو زندگی یکلخت نا خوشگواری کے احساس سے باہر آجاتی ہے۔ تمام تلخیاں طاق نسیاں کا رخ کر لیتی ہیں۔ شروع ہی سے شوہر نامدار کی عادت ہے کہ 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد جب گھر تشریف لاتے ہیں تو لپک کر بچوں کو گود میں اٹھا لیتے ہیں۔ چمٹاتے ہیں، سینے سے لگاتے ہیں۔ کچھ رشتہ داروں نے جب دیکھا تو ٹوکا کہ ’’ابھی آفس سے تھکے ہوئے آئے ہو، فریش ہو جائو، کپڑے تبدیل کر لو، پھر دیکھ لینا بچوں کو‘‘۔ شوہر محترم نے بے ساختہ جواب دیا ’’ان بچوں کو دیکھ کر دن بھر کی تھکن اُتر جاتی ہے‘‘۔ اپنے اپنے دائرۂ کار میں اپنی اپنی ذمے داریوں کو انجام دینے والے رشتوں پر مشتمل مضبوط خاندانی نظام جس میں کہیں کہیں مفاہمت بھی ہے اور کہیں محبت کا مضبوط تعلق بھی۔ یہ مضبوط و مستحکم خاندان جو اسلامی معاشرے کی حسین قدروں میں سے ایک ہے، آج کچھ عاقبت نااندیش آزاد خیالوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ وہ خوبصورت ذمے داریوں کے بندھن میں بندھے اس نظام کو قید خانہ قرار دے رہے ہیں اور اس کے خلاف باغیانہ روش پر اکسا رہے ہیں۔ چنانچہ کبھی ’’اپنی روٹی خود پکائو‘‘، ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے سلوگن تیار کیے جاتے ہیں اور کبھی حدود قوانین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مغرب نے جب مساوات مرد وزن کا نعرہ لگا کر عورت کو ہر محفل کی شمع بنایا تو اس کا نتیجہ مغرب نے یہ دیکھا کہ اول خاندان بعد ازاں معاشرہ افراتفری کا شکار ہوگیا۔ اپنے آپ کو خود مختار سمجھنے والی عورت گھر کی مالکہ کا تاج کھو بیٹھی۔ اپنی خواہش کے مطابق اب وہ ہر دفتر ہر دکان اور ہر بزنس کی زینت بنی تو ہوس اور زیادتیوں کا شکار ہونے لگی، اور ان رشتوں کو بھی کھو بیٹھی جن سے محبت اس کی فطرت میں رکھی گئی تھی۔ مرد اپنا غم غلط کرنے جب سکون کی تلاش میں نکلے تو غیر فطری راہوں کی طرف چل پڑے۔ یورپ کی عورت خود مختار مگر تنہا ہے اور یورپ کا مرد سکون سے محروم۔ اس شکست و ریخت کے بعد لازمی طور پر آج مغرب اپنی سوچ پر نظر ثانی پر مجبور ہوگیا ہے۔ بہت سے مغربی ممالک عورت کو گھر واپس لانے کے لیے مختلف سہولتیں اور ترغیبات پر مبنی پروگرام لا رہے ہیں۔ ایسے میں آزادی کی خواہش مند تمام دانشور خواتین، اگر حقیقت کی عینک لگا کر حالات کا تجزیہ کریں تو جلد جان جائیں گی کہ اسلام نے عورت کو جو وقار و مرتبہ عطا کیا ہے وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ قبل از اسلام دور جاہلیت میں اگر عورت اس قابل تھی کہ اسے پیدا ہوتے ہی دفنا دیا جاتا تھا تو جدید معاشروں میں حال یہ ہے کہ عورت ہر جگہ موجود ہے، ماسوائے اس گھر کے جس کی کبھی وہ ملکہ تھی۔ وہ چپڑاسی بھی ہے، سیلزگرل بھی ہے، خاکروب بھی ہے اور بس ڈرائیور بھی۔ وہ ایک غیر شادی شدہ شریک زندگی کی بے وفائی سہنے کے بعد جلد دوسرا ساتھی بنا لیتی ہے۔ وہ بے غرض محبت کی تلاش میں ہر دوسرے دن اپنا ’’بوائے فرینڈ‘‘ نہایت آزادی کے ساتھ تبدیل کر لیتی ہے مگر ایک اسلامی معاشرے کی عورت کی طرح اس مخلص و باوفا شوہر کی محبت سے محروم ہے جو مرتے دم تک بیوی کا ساتھ نبھاتا ہے، اور ہر دکھ میں مضبوط سہارا بن کر اس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جس کا شاید واحد حسن یہاں مضبوط خاندان کا ہونا ہے، تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ 2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں کراچی میں طلاق و خلع کے 14943 مقدمات رجسٹرڈ ہوئے۔ کراچی کے ہر ضلع میں روزانہ طلاق و خلع کے 40 مقدمات رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال دوسرے شہروں میں ہے۔
معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔ خاص طور پر نئی نسل اپنی خواہشات و انا پر کوئی سمجھوتا کرنے پر راضی نہیں۔ تعلیمی اداروں سے لے کر دفاتر وغیرہ تک ہر جگہ خواتین کی نمائندگی بڑھائی گئی۔ مگر اس کے نتیجے میں خواتین میں بڑھتا ہوا احساس خود مختاری انہیں باغیانہ روش کی طرف لے جا رہا ہے۔ بیش تر لڑکیاں یہ سوچتی ہیں کہ اتنی قربانیوں کے بعد بھی نصیب میں طعنے ہی لکھے ہیں تو شوہروں کے آگے پیچھے پھر کر اپنی پرکشش جوانی ضائع کرنے کے بجائے ان سے طلاق لے کر جان چھڑائیں۔ تعلیمات اسلامی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی مہربانؐ نے نیک بیوی کو بہترین متاع حیات قرار دیا۔ زیادہ اولاد دینے والی اور شوہر کی وفادار عورت کو پسند کیا گیا۔ فی الحقیقت اگر عورت ان خصوصیات کی حامل ہے تو شوہروں کا فرض ہے کہ وہ ان کے کڑے محتسب بننے کے بجائے ان کی دلجوئی کریں کہ
عمر کا لمبا ساتھ نبھانے، اولاد پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات نبھاتے نبھاتے عورت کی قوت برداشت کم ہونے لگتی ہے اور وہ چڑچڑاہٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔ شوہروں کو چاہیے کہ اپنی محبت کا احساس دلاتے ہوئے ایسی کیفیات کو بحسن و خوبی برتیں۔ اور اس نا خوشگواری سے بچیں جو آج کل کثرت سے جنم لے رہی ہے۔ ٹوٹتے بکھرتے خاندانوں کے اس معاشرے میں مغرب زدہ بیبیوں کے ڈیزائن کردہ سلوگن ہیں اور دوسری طرف گلیمر زدہ ڈرامے۔ جو عورتوں کو بغاوت اور مردوں کو محبتوں کے حصول کے ناجائز ذرائع سکھا رہے ہیں۔ جن کی کہانیاں مکمل طور پر ان موضوعات کے گرد گھوم رہی ہیں۔ سسر اور بہو کا معاشقہ، دیور اور بھابی کی محبت بھری باتیں، شادی شدہ بچے والی عورت کی غیر مرد میں دلچسپی، گھر کی ماسی سے ناجائز تعلقات۔
اس معاشرے کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لیے اہل فکر و دانش کو مخلص انداز میں آگے آنا ہوگا۔ اصلاحی ڈراموں اور تشہیر کے دوسرے ذرائع استعمال کر کے اسلامی اقدار وروایات کو ترویج دینا ہوگی۔ وہ روایات جو سرور کائناتؐ کی تعلیمات سے ملی ہیں اور خاندانوں کو مستحکم کرنے کا سبب ہیں۔ یعنی عائلی زندگی کے حقوق و فرائض، بزرگوں کی تکریم، بچوں سے شفقت اور ان کی دینی تربیت۔۔۔ منظم اور بھرپور جدوجہد کے ذریعے مغرب کی آزاد مگر بے وفائی کے وار سہتی ہوئی عورت کا حقیقی چہرہ واضح کرنا ہو گا۔ مغرب زدہ میڈموں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ گھر کی چار دیواری، شوہر کی بے غرض محبت، رشتوں کی زنجیریں، بچوں کی ذمے داریاں یہ سب عورت کے سر کا بوجھ نہیں بلکہ اس کی فطری ضروریات ہیں جن سے فرار کا مطلب اپنی سکون بھری زندگی سے فرار ہے۔