کسان احتجاج اور مودی کی سفاکانہ پالیسیاں

461

اکرام سہگل

وہ 26 نومبر 2020 کا دن تھا، جب ہندوستانی کسان یونینز نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی۔ ایک اندازے کے مطابق اس ہڑتال میں 250 ملین افراد نے شرکت کی۔ 30 نومبر کو دو سے تین لاکھ کسانوں کی ٹولیاں ٹریکٹرز پر سوار دہلی کے مختلف داخلی حصوں پر اکٹھی ہوگئیں۔ پنجاب کو اپنی زرخیزی کی وجہ سے ہندوستانی زرعی نظام میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اترپردیش اور ہریانہ کا بھی یہی معاملہ۔ اور ان ہی علاقوں کے کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ ان کسانوں نے شہر کے متعدد داخلی راستوں کی ناکا بندی کر دی۔ حکومت کی چولیں ہلا دینے اور عالمی توجہ حاصل کرنے والے کسانوں کے اس احتجاج نے گزشتہ چند ماہ میں سیاست، صحافت اور شوبز سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کی ممتاز شخصیات میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کیا۔
ہزاروں کسانوں نے دہلی کے مضافات میں تین بستیوں کو اپنا ٹھکانا بنا لیا، جن میں سے ایک غازی پور ہے۔ یہ دو کلیومیٹر پر محیط، چھے لین ایکسپریس وے ہے، جس میں سپلائی اسٹور، میڈیکل ڈیپارٹمنٹ اور ایک لائبریری شامل ہے۔ قریبی شہری مراکز سے پینے، نہانے اور دیگر ضروریات کے لیے پانی ٹریکٹرز کے لیے ذریعے لایا جاتا ہے۔ بے شک اُنہیں کئی مشکلات درپیش ہیں، جیسے موسم کی شدت، پولیس اور سیکورٹی فورسز سے ٹکرائو، انٹرنیٹ پر پابندی۔ پھر ان کی تعداد۔ جو اُن کی زرعی ذمے داریوں کی وجہ سے گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔
ہندوستانی سرکار کے پروپیگنڈے کے برخلاف، یہ فقط سکھ برادری نہیں جو غمزدہ ہے۔ ضلع ہسار میں سرسود گائوں سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ کسان پروین سرسود کا اس ضمن میں بیان اہم، جس کا کہنا ہے، ’’گو اس تحریک کا نقطۂ آغاز 25نومبر کو ریاست پنجاب کی سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے کسانوں کا ہی احتجاج تھا، مگر اب تو ہریانہ بھر کے عوام احتجاج کر رہے ہیں‘‘۔ حکومتی ارکان کے اس دعوے نے کہ اس سرکار مخالف احتجاج کی قیادت خالصتان کے حامی کر رہے ہیں، ہریانہ کے کسانوں کو غم و غصہ سے بھر دیا ہے۔ ایک 80سالہ ضعیف کسان دیونند لال سنگھ نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا: ’’دیکھو ہمیں اور بتائو، ہم میں سے کتنے دہشت گرد ہیں؟ اگر یہ قوانین نافذ ہوگئے، تو ہمیں حقوق سے محروم اور پابند سلاسل مزدور بنا دیا جائے گا‘‘۔ ناراض کسانوں کی جانب سے’’ آکروش‘‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے، جس کے معنی غم و غصے کے ہیں۔
پنجاب میں ہاریوں کو منظم کرنے کا کام کسانوں کی یونینز نے کیا۔ ہریانہ میں یونین کا ایسا اسٹرکچر نہیں۔ یہاں جاٹ برادری سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اس احتجاج کو منظم کر رہی ہیں، جوکھپ (Khaps) کہلاتی ہیں۔ روہتک بائی پاس کے کیمپ میں موجود سجن نامی کسان نے فخریہ انداز میں اس معاملے پر روشنی ڈالی۔ اس کے بہ قول، ’’اس احتجاج میں کسی طرح کی سیاست شامل نہیں، جاٹوں کے پاس ایک عرصے سیاسی طاقت رہی، مگر 2014 میں وہ بی جے پی کے باعث اِسے کھو بیٹھے۔ اب یہ بڑی حد تک کھپ تحریک ہے، جسے راجپوت، برہمن اور رور برادری کے محدود حصے کی حمایت حاصل ہے‘‘۔ یاد رہے کہ دونوں ریاستوں کے ماضی کے تعلقات میں ذرا تنائو رہا۔ روہتک بائی پاس پر آسوڈا گائوں سے تعلق رکھنے والے کسان دھرمپال لال کا کہنا ہے: ’’ان قوانین میں بس ایک ہی اچھی چیز تھی، ان کے باعث دونوں ریاستوں میں بھائی چارے کی فضا پیدا ہوگئی، مودی نے ہم پر احسان کیا ہے‘‘۔
26جنوری ہزاروں کسان ٹریکٹروں پر، ایک منظم پریڈ کی صورت دہلی میں داخل ہوئے تھے۔ اس دن بھارت اپنا نیشنل ڈے مناتا ہے۔ انہوں نے پہلے سے منظور شدہ راستوں سے انحراف کیا۔ پولیس کے ساتھ شدید جھڑپیں کیں اور لال قلعے اور اس کے اطراف میں مذہبی اور کسان یونین کے پرچم لہرا دیے۔ بھارت کی ’جی ڈی پی‘ میں کسانوں کا حصہ 18 فی صد ہے۔ غریب کاشت کار، جو اس طبقے کی اکثریت ہیں، تین ایکٹر سے کم کے رقبے پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے بعد زراعت پر انحصار کرنے والے گھرانوں کی ماہانہ آمدنی میں بے حد معمولی اضافہ ہوا۔ دیہی آبادی کا 52 فی صد حصہ بھاری قرضوں کی زد میں ہے، کسانوں کی خودکشیوں کی خبریں اکثر میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔
آمرانہ روش پر عمل پیرا بی جے پی نے اپنی اکثریت کو کام میں لاتے ہوئے ستمبر 2020 میں زرعی سیکٹر میں تین بل منظور کرائے۔ اپوزیشن نے الزام لگایا کہ حکومت نے ان بلز کو پاس کرنے میں جلد بازی کی اور ان کے موقف اور بلز کو پارلیمانی کمیٹی بھیجنے کے مطالبے کو نظر انداز کیا۔ کئی خامیوں کے حامل، جلد بازی میں پاس کیے گئے ان بلز کی وجہ سے احتجاج پھوٹ پڑا۔ ان بلز میں The Farmers Produce Trade and Commerce کا بل بھی شامل ہے، جس کا مقصد منڈی سسٹم، تجارت اور ترسیل میں تسلط، حکومت کی زیر انتظام منڈیوں یا زرعی پیداوار ی کمیٹیاں ختم کرنا ہے۔ اس میں کسانوں کو اپنے اضلاع کے لیے مقررہ ’’مڈل مین‘‘ (تھوک فروش تاجر) کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی اجناس کی فروخت کے لیے مارکیٹوںسے براہ راست جڑنے کی اجازت و سہولت دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ بیش تر زرعی پیداوار، خاص طور پر گندم اور دھان حکومت کی جانب سے ہر سال اعلان کردہ کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) پر فروخت ہوتا ہے۔
ایک بل “Farmers (Empowerment and Protection) Agreement of Price Assurance and Farm Services” سے متعلق ہے، جس کا مقصد کسانوں کو زبانی یا تحریری معاہدوں کے ذریعے کاشت کاری میں مشغول کرنے کے لیے امکانات پیدا کرنا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس کا ایک مقصد کسانوں کے لیے ملکی اور کارپوریٹ منڈیوں تک رسائی کا راستہ کھولنا ہے۔
ان میں آخری 1955 کے Essential Commodities Act میں ترمیم کا بل تھا، جس کے تحت اناج، دالیں، خوردنی تیل، پیاز اور آلو کو ڈی ریگولیٹ کر دیا گیا ہے۔ اِن تینوں بلز کا مقصد بہ ظاہر تو زرعی شعبے میں لین دین کو زیادہ آزاد اور سہل بنانا ہے۔ البتہ ماہرین کے نزدیک یہ قوانین اس منڈی سسٹم کو تباہ کر دیں گے، جو مڈل مین (تھوک فروش تاجر) کے ساتھ کام کرتا ہے، بلکہ کم سے کم قیمتوں کی بھی یقین دہانی کراتا ہے۔
اس ضمن میں برطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے ایک کسان نے کہا، ’’ پہلے، کاشت کار ان نجی کھلاڑیوں کی طرف راغب ہوں گے جو پیداوار کی بہتر قیمت پیش کریں گے۔ اس دوران سرکاری منڈیاں بھر جائیں گی اور کچھ سال بعد یہ کھلاڑی کسانوں کا استیصال کرنے لگیں گے۔ ہم اسی بات سے خوف زدہ ہیں‘‘۔ ان الزامات کے جواب میں، حکومت کا تو یہی موقف ہے کہ منڈی نظام جاری رہے گا، اور وہ پیش کردہ کم سے کم سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) واپس نہیں لے گی۔ البتہ کسان ہنوز شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
کسانوں کو درپیش متعدد پریشانیوں میں ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ 85 فی صد ہندوستانی کاشت کار طبقہ غریب کسانوں پر مشتمل ہے۔ انہیں بازاروں یا نقل و حمل کی سہولتوں تک رسائی نہیں، ایسے میں ان سے علاقائی، ملکی اور کارپوریٹ مارکیٹوں تک رسائی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ماہرین کے مطابق یہ قوانین کارپوریٹ کاشت کاری کو سہل بنا دیں گے، جس کے بعد کاشت کاری بڑی بڑی کمپنیوں کے زیر اثر فارمز یا فقط بڑے کاشت کاروں کے فارمز ہی پر ممکن ہوگی۔
(جاری ہے)