رازِ حیات

390

زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اور ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے کامیاب بنایا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ کامیابی کا معیار ہر ایک نزدیک الگ الگ ہے۔ تاہم کامیابی کے معیار کی دو بڑی اقسام ہیں، اول یہ کہ لوگ اس دنیا ہی کی زندگی کو کامیابی کا معیار بنالیتے ہیں دوم یہ کہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ اور خاص طور پر آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ اس اصل کامیابی کے حصول کے بہت سے طریقے ہیں اور نبی کریم ؐ نے کامیابی کے جو طریقے بتائے وہی اعلیٰ اور افضل ہیں نہ صرف دینی اعتبار سے کہ رسول اللہ ؐ ہی ہمارے لیے معیار حق ہیں اور عقلی اعتبار سے بھی۔ کیونکہ نبی کریم ؐ کی ہر تعلیم عقلی معیار پر سو فی صد پوری اُترتی ہے اور اگر ہماری محدود عقل میں ان کی کوئی بات نہ بھی سمائے تو وہ ہوتی برحق ہے اور اس پر عمل کرکے ہی ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
اس کامیابی کے حصول کا اصل راز ’’وقت کا دانش مندانہ استعمال‘‘ ہے۔ کیونکہ کامیابی کے راستے میں بہت سے فرائض اور کام ہیں، اور اتنے کام ہیں کہ اگر کسی ایک طرف لگ جائیں تو دوسرے کا وقت نہیں ملتا اور عمر کا بہت سا قیمتی وقت ہم فضول کاموں میں ضائع کردیتے ہیں اور ہمیں عمر کے آخری حصے میں ہوش آتا ہے کہ پہلے ہم نے وقت کو ضائع کیا اور پھر وقت نے ہمیں ضائع کردیا۔ لیکن اس وقت پچھتانے سے بہتر ہے کہ ابھی سے کچھ کرلیں۔ یہ کلیہ ہر مذہب، مسلک، رنگ ونسل اور ہر نظریے کے ماننے والے پر صادق آتا ہے کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ چاہے کوئی دولت اور ثروت کو کامیابی کا معیار بنائے، چاہے شہرت اور اقتدار کو یا چاہے آخرت میں کامیابی کو۔ اس مرحلے پر یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اگر کوئی بھی فرد آخرت میں کامیابی کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اس کی دنیا خودبخود سنور جاتی ہے۔ ایک اور وضاحت بھی ضروری ہے کہ دنیا سنورنے کا مطلب دولت، شہرت یا اقتدار نہیں۔ بلکہ دنیا میں آپ کے جو بھی فرائض ہیں، مثلاً حصول علم، روزگار، اپنے والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کی بخوبی ادائیگی۔ ان سب فرائض کے ساتھ ساتھ ایک بنیادی فریضہ بھی ہے، وہ حقوق اللہ کی ادائیگی ہے۔ فرائض اور واجبات کے ساتھ ساتھ اللہ رحمن الرحیم سے قلبی تعلق، اس کی نعمتوں کا شکر، ہرلمحے اسی کا تصور۔ نبی کریم ؐ سے عشق، ان کی حیات طیبہ ؐ کا مسلسل مطالعہ کرکے ان سے محبت کو دل میں بڑھاتے جانا اور اس میں اتنا اضافہ کرلینا کہ جب بھی ذکر مصطفیٰ ؐ آئے، آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں۔
یہ تمام کام ممکن ہیں، اگر وقت کے گھوڑے پر سوار ہوکر ہم اس کی لگام مضبوطی سے پکڑ لیں۔ وقت کی مثال برف کی طرح ہے، جو تیزی سے پگھل رہی ہے اگر اسے استعمال نہ کیا تو وہ پانی بن جائے گی۔ ہمیں ہر روز ایک ہزار چار سو چالیس منٹ دیے جاتے ہیں۔ اگر ہم ان کا دانش مندانہ استعمال کریں اور ثابت قدمی کے ساتھ کریں تو کار زار حیات میں ہم ہی کامیاب ہوں گے۔ ایک ایک لمحے کو قیمتی بنانا اور اگر ممکن ہو تو کاغذ پنسل تھام کر تمام کاموں کو لکھ لینا اور باقاعدہ نظام الاوقات بنا کر کام کرنا۔ دنیا کے تمام بڑے اور کامیاب لوگوں نے اسی فارمولے پر عمل کیا۔ ہمارے لیے تو نبی کریم ؐ کی ذات بابرکات ہی مثال ہے۔ ہمیں ان ؐ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔
رسول اللہ ؐ نے اپنے وقت کا بہترین استعمال کیا، رات کے تیسرے پہر میں اٹھ کر نوافل ادا کرنا، فجر کی نماز کے بعد صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مجلس کرنا، نماز ظہر کے بعد قیلولہ فرمانا، شام کو ازواج مطہرات ؓ کے گھر وں میں جاکر ان کی خیریت دریافت کرنا۔ بیماروں کی عیادت کرنا، جنازوں میں شرکت کرنا۔ امور مملکت نمٹانا، جنگوں میں شرکت کرنا، مقدموں کے فیصلے کرنا، بہت اہتمام سے عبادات کرنا، ذکر میں مشغول رہنا اوربہت سے کام انجام دینا۔ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ہمارے لیے نبی اکرم ؐ کی ذات میں ہر طرح کی مثال ہے، ہم سیرت طیبہ ؐ کا مسلسل مطالعہ کرکے اپنی زندگی کو بھرپور اور مثالی بناسکتے ہیں۔ ان کے صحابہ کرام ؓ نے نبی کریم ؐ کی سنتوں پر عمل کرکے اپنے وقت کا بہترین استعمال کیا اور اتنی کامیابیاں حاصل کیں کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں۔ لیکن اس کے لیے یکسوئی اور ثابت قدمی ضروری ہے۔ رازِ حیات یہی ہے کہ وقت کا مؤثر اور بھرپور استعمال کیا جائے اور فرائض و واجبات کے علاوہ اتنے کام کیے جائیں جن کو مستقل طور پر جاری رکھا جاسکے۔ ان کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر ہی ہم کامیابی کی ایسی منزلوں پر پہنچ سکتے ہیں جس کا تصور بھی محال ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہم وقت کو فضول کاموں میں ضائع کرنے کے بجائے ایسے کاموں میں صرف کریں جو ہمیں کامیاب بناسکیں۔ یہی رازِ حیات ہے اور یہی زندگی کا حاصل۔