سیاست اور صحافت غلامی کاشکار ہیں،میڈیامالکان نظریاتی سوچ کے حامل نہیں

335

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) اسلام کے اخلاقی نقطہء نظر کی روشنی میں آزاد ذرائع ابلاغ کی صحیح تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے‘ ذرائع ابلاغ کو حقیقی آزادی تو ہمارے ملک میں کبھی حاصل نہیں رہی‘یہ بدترین غلامی کا شکار ہے‘ ریموٹ کنٹرول سسٹم کے تحت ایسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ مالکان اور صحافی خود ہی خبروں کو سنسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں‘جمہوری اور عوامی حکومت کہلانے والے حکمران ذرائع ابلاغ کے ساتھ آمر حکومت کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں‘ ذرائع ابلاغ کے مالکان عموماً کسی نظریاتی یا سیاسی سوچ کے حامل نہیں ہوتے‘سیاست اور صحافت کا چولی دامن اور گوشت اور ناخن جیسا معاملہ تھا‘ اسی کی بڑی مثالیں سید مودودی ، مولانا محمد علی جوہر اور سر سید کی شکل میں موجود ہیں‘ سیاست اور صحافت دونوں غلامی کی کیفیت میں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا عبدالحق ہاشمی، روزنامہ امت وہفتہ روزہ تکبیر کے سابق مدیرمعروف دانشور ثروت جمال اصمعی، کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی اور جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیراسامہ بن رضی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میںکیا کہ ہمارا ذرائع ابلاغ کتنا آزاد ہے۔ مولانا عبد الحق ہاشمی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کی عمومی آزادی کی بات کے ساتھ اگر ہم ذرائع ابلاغ کی آزادی کو اسلام کے اخلاقی نکتہ نظر سے دیکھیں تو اس پر قومی بحث اور اس کی روشنی میں آزاد ذرائع ابلاغ کی نئی اور صیح تعریف کی ضرورت ہے تاہم یہ طویل مگر اہم عمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے حوالے ایسے حقائق اور دلائل موجود ہیں جن کی روشنی میں ذرائع ابلاغ کے لیے کچھ حد بندیاں، اخلاقی قیود اور قواعد و ضوابط مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ذرائع ابلاغ پر عموعاً حکومت وقت کے اقدامات پر مختلف پروگرامات، تجزیوں یا خبروں کے ذریعے تنقید کی جاتی ہے جب کہ حکومت کو کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح کے مواد کو کم سے کم نشر کیا جائے یا ان کی اشاعت نہ کی جائے اور ذرائع ابلاغ پر عوام کو حقائق سے کم سے کم آگاہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام تک حقائق پہچانے سے روکنے کے لیے اشاعتی اور نشریاتی اداروں پر سنسر شپ لگایا جانا، صحافیوں کو دھمکیاں دینا اور دبائو کے دیگر طریقے استعمال کرنا مارشل لا کی حکومتوں کا وطیرہ تھا لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ آج خود کو جمہوری اور عوامی حکومت کہلانے والے حکمران ذرائع ابلاغ کے ساتھ وہی مارشل لا حکومت کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں‘ یہ ذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ ملک کے تمام تر معاملات پر عوام کو حقائق بتائے اور یہ عوام کا حق ہے۔ ثروت جمال اصمعی نے کہا کہ ہمارے ملک میںذرائع ابلاغ کو حقیقی آزادی کبھی حاصل نہیں رہی‘ حکمران اور طاقتور حلقے انہیں کنٹرول کرنے کے لیے ماضی میں پریس ایڈوائز، سنسر شپ، سرکاری اشتہارات کی بندش، ڈیکلریشن کی منسوخی اور مقدمات میں گھسیٹنے وغیرہ کے بھونڈے طریقے اختیار کرتے رہے ہیں تاہم اس میں اب تبدیلی آگئی ہے ‘ اس دور میں ذرائع ابلاغ کو پابند کرنے کے طریقوں میں جدت پیدا ہوئی ہے‘ اب ریموٹ کنٹرول سسٹم کے تحت ایسے حالات پیدا کردیے گئے ہیں کہ مالکان اور صحافی خود ہی سنسر کا اہتمام کرنے پر مجبور ہیں اور اختلافی آرا کا اظہار بھی ان غیر مرئی حدوں کے اندر کیا جاتا ہے جو اس مقصد کے لیے مقرر کردی گئی ہیں‘ خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے تحریص و ترغیب کے دام میں نہ آئیں اور زبانی دھمکیاں بھی انہیں قابو کرنے کے لیے کارگر نہ ہوں تو کسی چوک وچوراہے پر کسی بہانے سے ان کی ٹھکائی کی جاسکتی ہے اور اس پر بھی بات نہ بنے تو انہیں عارضی یا مستقل طور پر لاپتا کیا جاسکتا ہے۔ ثروت جمال اصمعی کا مزید کہنا تھا کہ بالادست طبقوں کا آخری حربہ اس دار فانی سے دارالبقا بھیج دینے کا ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں پچھلے چند برسوں میں درجنوں صحافی اس کا ہدف بن چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پابندی کی دوسری شکل برقی اور کاغذی ذرائع ابلاغ میں طاقتور حلقوں کے بے ضمیر پالتو ایجنٹوں کا تقرر ہے جنہیں پر تعیش زندگی کی سہولتیں اور بھاری مفادات کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں تعینات کیا جاتا ہے اور وہ عالم بالا سے ملنے والی ہدایات کے مطابق مخصوص پروپیگنڈے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں استعمال کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی نے کہا کہ آج یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کیونکہ وہ نسل ابھی باقی ہے جس نے تاریخ کے کسی دور میں آزاد ذرائع ابلاغ دیکھا تھا لیکن اُس دور کے ذرائع ابلاغ میں اور آج کے ذرائع ابلاغ میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ اُس دور میں ذرائع ابلاغ اخبارات کی حد تک تھا جب کہ ریڈیو ہمیشہ حکومت کے زیرِ اہتمام ایک ادارہ رہا اور اسی طرح جب ٹی وی آیا تو وہ بھی حکومت کے ہی زیر اہتمام رہا۔ ان کا کہنا تھاکہ اخبارات البتہ ابتداً نظریاتی اور سیاسی سوچ سے وابستہ رہے اور تقسیمِ پاک و ہند کے بعد تھوڑے تھوڑے تجارتی بنیادوں پر چلنا شروع ہوئے تب بھی ان کی ایک آزادانہ مقصدیت نمایاں تھی‘ یہی وہ دور تھا جب تک اخبارات کسی حد تک آزاد اور چند معاملات میں حکومت کے تابع ہوتے تھے لیکن اگر ملک میں ہنگامی حالات یا مارشل لا جیسی صورت پیدا ہوجاتی تو یہ آزادی بھی سلب کرلی جاتی لیکن دو چار ایسے اخبار و رسائل ضرور ہوتے جو خم ٹھوک کر میدان میں ڈٹ جاتے حتیٰ کہ ان کے ذمے داران کو سیاسی الزامات کے تحت جیل جانا پڑتا نا کہ لوٹ مار اور بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل فاروقی کا کہنا تھا کہ آج میڈیا کی ریڑھ کی ہڈی ٹیلی وژن چینلز ہیں اور اخبارات ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں‘ تیسری صنف ایف ایم ریڈیو ز ہیں‘ ذرائع ابلاغ واضح طور پر اطلاعات اور تفریحات میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں‘ تفریح کے میدان میں ذرائع ابلاغ نہ صرف آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہے‘ اطلاعات کے حوالے سے ذرائع ابلاغ حکومت کا پابند ہے بلکہ اپنے تجارتی معاہدوں اور تجارتی مفادات کے بھی سخت پابند ہیں‘ آج ذرائع ابلاغ کے مالکان عموماً کسی نظریاتی یا سیاسی سوچ کے حامل نہیں ہوتے‘ اکثر مالکان تو صرف سیٹھ یا بنیے ہیں اور ذرائع ابلاغ ان کے لیے محض ایک سودمند کاروبار ہے جس میں کسی بھی تنگی کی صورت میں وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کردیں گے‘ انہیں ملازمت سے نکال باہر کریں گے لیکن اپنے منافع میں 2 پیسے کی کمی برداشت نہیں کریں گے‘ نتیجہ یہ ہے کہ نجی ٹیلی وژن چینلز، اخبارات و رسائل اور ایف ایم ریڈیو آزاد نہیں ہیں۔ اسامہ بن رضی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ ہمارے معاشرے کا ایک جز ہے جو بدترین غلامی کا شکار ہے‘ وہ تہہ در تہہ پابندی اور غلامی میں آچکا ہے‘اب ذرائع ابلاغ پر سرمایہ دار طبقے کی مکمل بالادستی قائم ہوچکی ہے اور ان پر اس سے زیادہ بالادست اور طاقتور قوتوں کا زور چلتا ہے تاہم جب ان دونوں طبقوں میں مفادات کا ٹکرائو ہو تا ہے تو پھر ذرائع ابلاغ کی آزادی کا درد اٹھتا ہے ورنہ ذرائع ابلاغ کی آزادی جیسی کوئی چیز اب یہاں پائی نہیں جاتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے عوامی آزادی کے لیے کام کرنے والے ذرائع ابلاغ کو اپنے خیالات، نظریات اور سیاست کے فروغ کے لیے استعمال کرتے تھے اور سیاست اور صحافت کا چولی دامن اور گوشت اور ناخن جیسا معاملہ تھا‘ اس کی بڑی مثال سید مودودی ، مولانا محمد علی جوہر اور سر سید کی شکل میں موجود ہے‘ اب یہ عمل مکمل طور پر ختم کیا جا چکا ہے‘ سرمایہ دارانہ اور کارپوریٹ سیکٹر ذرائع ابلاغ پر قابض ہو چکا ہے جس نے صحافتی کام کرنے والوں کو کارخانے میں کام کرنے والی لیبر فورس میں تبدیل کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میںکچھ قصور خود صحافیوں کا بھی ہے‘ اس حقیقت کے باوجود کہ صحافت تو پیداوار ہی سیاست کی ہے‘ اس ملک میں سیاست اور صحافت دونوں غلامی کی کیفیت میں ہیں۔