عربی اور ہمارا کلچر

879

پاکستان کی سینیٹ نے عربی کو تعلیمی اداروں میں لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائے جانے سے متعلق قرارداد منظور کرلی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اس موقع پر تلوار سونت کر سامنے آگئے۔ انہوں نے کہا کہ عربی کو ہمارے کلچر پر مسلط کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کلچر انڈس ویلی یا دریائے سندھ کے اردگرد پروان چڑھنے والا کلچر ہے۔
رضا ربانی کے اس ردِعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عربی ایک غیر ملکی زبان ہے اور اس کا ہماری تہذیب اور ہمارے کلچر سے کوئی تعلق نہیں۔ حالاںکہ حقیقت یہ ہے کہ عربی قرآن کی زبان ہے، حدیث کی زبان ہے، فقہ کی زبان ہے، رسول اکرمؐ اور صحابہ کی زبان ہے، قصہ کوتاہ عربی ہمارے مذہب کی زبان ہے۔ مسلمانوں کے تناظر میں کلچر کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا کلچر مذہب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جدید مغرب کا تصور یہ ہے کہ مذہب خود کلچر کی پیداوار ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عربی صرف ہمارے کلچر کی نہیں پوری امت کے کلچر کی زبان ہے۔ چناں چہ جہاں قرآن ہے وہاں عربی ہے، جہاں حدیث ہے وہاں عربی ہے، جہاں عبادت ہے وہاں عربی ہے، جہاں فقہ کی روایت ہے وہاں عربی ہے، جہاں دین کی تعلیم ہے وہاں عربی ہے۔ یہاں تک کہ جہاں دُعا ہے وہاں عربی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ تھا جب عربی ہمارے معاشرے میں ’’ہائی کلچر‘‘ کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ چوں کہ ہمارے یہاں کلچر مذہب کی پیداوار ہے اس لیے عربی کیا فارسی بھی ہماری ’’ثقافت‘‘ کا حصہ تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی بھی ہمارے مذہب کی زبان رہی ہے۔ امام غزالی نے جہاں عربی میں لکھا ہے وہیں فارسی میں بھی کلام کیا ہے۔ ہمارے یہاں تصوف کی پوری روایت فارسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے یہاں شاعری کی مختلف اصناف بھی فارسی سے آئی ہیں۔ فارسی صدیوں تک برصغیر میں دربار کی زبان رہی ہے۔ اور آج سے سو سال پہلے تک فارسی بھی ہمارے ’’ہائی کلچر‘‘ کا حصہ تھی۔ رضا ربانی کے موقف کو دیکھا جائے تو انہوں نے انڈس ویلی کا نام لے کر کلچر کو مذہب کے بجائے ’’جغرافیے‘‘ سے وابستہ کردیا ہے۔ جغرافیہ ’’مقامیت‘‘ کا دوسرا نام ہے اور اسلام ایک ’’آفاقی‘‘ مذہب ہے۔ چناں چہ مسلمانوں کے کلچر کے بعض گوشے آفاقی ہیں۔ بلاشبہ اسلام سے پہلے عربی کا تعلق صرف جغرافیے سے تھا مگر اسلام کی آمد نے عربی زبان کو عالمگیریت اور آفاقیت عطا کرکے اسے جغرافیے بہت بلند کردیا۔ اسلام کی آمد کے بعد عربی صرف عربوں کی زبان نہ رہی بلکہ عجمیوں نے بھی عربی کو سینے سے لگایا۔ اس سلسلے میں برصغیر کے مسلمانوں کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں برصغیر کے علما نے قرآن کی جتنی تفاسیر تخلیق کی ہیں اتنی تفاسیر تو پورے عالم عرب نے بھی تخلیق نہیں کیں۔ چناں چہ رضا ربانی کیسے کہہ سکتے ہیں کہ عربی ہمارے کلچر کی زبان نہیں۔ بلاشبہ یہ ’’عوام کی زبان‘‘ نہیں۔ یہ ’’خواص‘‘ کی زبان ہے لیکن ہمارے عوام بھی عربی سے ایک روحانی، تہذیبی، تاریخی، جذباتی اور نفسیاتی وابستگی رکھتے ہیں۔
بہت کم لوگ یہ بات سمجھتے ہیں کہ رضا ربانی نے انڈس ویلی کے جس کلچر کا ذکر کیا ہے وہ اپنی اصل میں موئن جودڑو کی تہذیب کا کلچر ہے۔ کلچر کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اسے ’’زندہ‘‘ ہونا چاہیے۔ موئن جودڑو کا کلچر جو کچھ ہے ایک ’’مردہ کلچر‘‘ ہے اور جو کلچر مردہ ہو اسے ’’کلچر‘‘ نہیں کہا جاسکتا۔ کلچر وہی ہے جو زندہ ہے۔ جو ہمارے عقاید کا حصہ ہے۔ جو ہماری رگوں میں زندہ خون بن کر ہے۔ جو ہمیں تخلیقی سطح پر متحرک رکھتا ہے۔ جو ہم سے شعر کہلواتا ہے، افسانے لکھواتا ہے، ناول تخلیق کرواتا ہے، جو ہمارے ماضی کو حال بتاتا ہے اور حال کو مستقبل میں شامل کرتا ہے۔ رضا ربانی ذرا بتائیں تو انڈس ویلی کا کلچر ان میں سے کون سا کام کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انڈس ویلی کا کلچر ان میں سے ایک کام بھی نہیں کررہا۔ وہ صرف تاریخ کے میوزیم میں ایک ’’مردہ شے‘‘ کی حیثیت سے موجود ہے۔ ہم نہ موئن جودڑو کی ثقافت کے عقاید کو سر پر بٹھائے ہوئے ہیں، نہ انڈس ویلی کی زبان بول رہے ہیں۔ انڈس ویلی کے ہیروز ہمارے ہیروز ہیں، نہ اس کی شاعری ہماری شاعری ہے۔ نہ اس کی کہانی ہماری کہانی ہے۔ بندریا کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ جب اس کا بچہ مر جاتا ہے تو وہ اس کو فوراً کہیں پھینک نہیں دیتی۔ وہ کئی دن تک مردہ بچے کو سینے سے لگائے گھومتی رہتی ہے مگر پھر ایک دن آتا ہے کہ بندریا کو بھی ’’معلوم‘‘ ہوجاتا ہے کہ اس کا بچہ مرچکا ہے چناں چہ وہ اپنے بچے کو کہیں پھینک دیتی ہے۔ بدقسمتی سے رضا ربانی اور ان جیسے لوگوں کی ذہانت بندریا سے لاکھوں درجے کم ہے۔ وہ ایک ایسے کلچر کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں جو ہزاروں سال پہلے مرچکا۔ خدا معلوم رضا ربانی موئن جودڑو کی تہذیب کے کلچر کو کب اپنے آپ سے جدا کریں گے؟۔
میتھو آرنلڈ نے کلچر کے موضوع پر ایک معرکہ آرا کتاب لکھی ہے۔ جس کا نام ہے ’’کلچرل اینڈ انارکی‘‘۔ اس کتاب میں آرنلڈ نے کلچر کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسے ’’روشنی اور شائستگی‘‘ قرار دیا ہے۔ عربی سے مسلمانوں کے زندہ تعلق کو دیکھا جائے تو عربی ہر اعتبار سے ہمارے لیے ’’روشنی‘‘ بھی ہے اور ’’شائستگی‘‘ بھی۔ بدقسمتی سے انڈس ویلی کے کلچر میں ہمارے لیے کوئی ’’روشنی‘‘ ہے نہ کوئی شائستگی ہی ہم نے اس سے سیکھی ہے۔ اس کے باوجود بھی رضا ربانی انڈس ویلی کے کلچر کو ’’ہمارا کلچر‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں ثقافت کے حوالے سے دو اصلاحیں ہم معنی اصطلاحوں کے طور پر بروئے کار آتی ہیں۔ ایک اصطلاح ’’تہذیب‘‘ ہے اور دوسری اصطلاح ’’کلچرل‘‘۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ تہذیب اور کلچر کے فرق سے آگاہ نہیں۔ دراصل کلچر کسی تہذیب کی ’’مقامیت‘‘ کو کہتے ہیں اور تہذیب کلچر کی ’’آفاقیت‘‘ کا دوسرا نام۔ اس بات کا زیر بحث مسئلے سے یہ تعلق ہے کہ انڈس ویلی کا کلچر نہ اسلامی تہذیب کی ’’مقامیت‘‘ ہے اور نہ یہ کلچر ہمارے کلچر کی ’’آفاقیت‘‘ کی علامت ہے۔ یعنی انڈس ویلی کا نہ مسلمانوں کی تہذیب سے کوئی تعلق ہے نہ کلچر سے کوئی واسطہ ہے۔ انڈس ویلی کا کلچر اب صرف ایک مردہ چیز ہے اور رضا ربانی اس کا ذکر کرکے معاشرے میں مردہ پرستی کو کلچر بنانے کی سازش کررہے ہیں۔
انڈس ویلی کے کلچر کا مسئلہ صرف یہی نہیں ہے کہ وہ مردہ کلچر ہے اور عربی اس کے لیے ایک ’’غیر ملکی‘‘ زبان ہے۔ بلکہ انڈس ویلی کے کلچر کی مقامیت اتنی ہولناک ہے کہ اس کے لیے اردو بھی ’’غیر ملکی‘‘ زبان ہے۔ رہی سندھی تو انڈس ویلی کے کلچر کے لیے سندھی ایک ’’اجنبی زبان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ جس طرح عربی، فارسی اور اردو مسلمانوں کی مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی زبانیں ہیں اسی طرح سندھی بھی اپنی نہاد میں ایک مذہبی زبان ہے۔ سندھی کلچر کی سب سے توانا علامت شاہ عبدالطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی شاعری ہے اور ان دونوں شاعروں کی شاعری اپنی روح میں مذہبی ہے۔ شاہ لطیف اور سچل سرمست دونوں صوفی شاعر کہلاتے ہیں اور تصوف کو طریقت یعنی شریعت کا کمال کہا جاتا ہے۔ تو کیا اب رضا ربانی کسی دن یہ فرمائیں گے کہ اردو اور سندھی کا بھی انڈس ویلی کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ برصغیر کے لوگوں پر نہ عربی مسلط کی گئی، نہ فارسی مسلط کی گئی، نہ اردو مسلط کی گئی۔ عربی اور فارسی کو برصغیر کے لوگوں نے مذہبی زبانوں کی حیثیت سے سیکھا اور محبت سے سیکھا۔ فارسی چوں کہ دربار کی زبان تھی اس لیے اسے سرکاری زبان کی حیثیت سے بھی سیکھا گیا۔ اردو دو صدیوں سے پورے برصغیر میں ’’رابطے‘‘ کی واحد زبان ہے۔ چناں چہ اردو کو ناگزیر ضرورت کے طور پر اختیار کیا گیا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ رضا ربانی نے عربی کو تو ’’مسلط‘‘ ہوتے ہوئے دیکھا مگر انہیں آج تک انگریزی کہیں مسلط نظر نہیں آئی۔ ہم نے رضا ربانی سے آج تک نہیں سنا کہ انگریزی انگریزوں کی زبان ہے۔ انگریزی غلامی کے تجربے کی علامت ہے۔ اس زبان کا انڈس ویلی کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رضا ربانی کا اصل مسئلہ انڈس ویلی اور اس کا کلچر بھی نہیں ہے۔
ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ عربی عام ہوگی تو قرآن و حدیث کا شعور عام ہوگا۔ قرآن و حدیث کا شعور عام ہوگا تو معاشرے کی مذہبیت اور گہری ہوجائے گی۔ معاشرے کی مذہبیت اور گہری ہوجائے گی تو رضا ربانی جیسے سیکولر اور لبرل لوگ معاشرے میں اجنبی ہونے لگیں گے۔
رضا ربانی نے عربی کو ’’عرب کلچر‘‘ تک محدود کردیا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے پر عرب کلچر کا کوئی اثر ہی نہیں۔ ہمارا لباس ’’مقامی‘‘ ہے۔ ہمارے کھانے ’’مقامی‘‘ ہیں، ہماری شادی بیاہ کی رسوم ’’مقامی‘‘ ہیں۔ ہماری شاعری ’’مقامی‘‘ ہے۔ دوسری طرف انگریزی کا تسلط ہے۔ انگریزی کے کلچر کے تحت ہمارا لباس انگریزوں جیسا ہے، ہمارے کھانے مغربی ہیں۔ یہاں تک کہ انگریزی میں لکھنے والے ایسے افسانے اور ناول لکھتے ہیں جو مغرب کی ضرورت ہوں تو ہوں مقامی ضرورت ہرگز نہیں۔ جہاں تک انگریزی شاعروں کا تعلق ہے اس کا ہماری مقامی حسّیت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ مگر رضا ربانی اور ان جیسے لوگ کبھی انگریزی کے تسلط اور اس کے مضمرات پر کلام نہیں کرتے۔