افغانستان جوبائیڈن کا نیا دردِسر

560

امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے وزرات خارجہ کے پہلے دورے کے موقع پر امریکا از بیک، ڈپلومیسی از بیک کا نعرہ لگایا ہے۔ جوبائیڈن کے اس دعوے پر واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار ڈیوڈ اگنیشس نے یہ گرہ لگائی ہے کہ اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی واپس آگیا ہے کہ کیا امریکا افغانستان میں جنگ کا دور واپس لا سکتا ہے؟ ڈیوڈ نے افغانستان کو امریکا کی خارجہ پالیسی کا ایک بڑا دردِ سر قرار دیا ہے۔ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سترہ برس کی لڑائی کے بعد امریکا کو افغانستان سمیت دنیا میں بپاکردہ جنگوں سے ہاتھ کھینچنے کی پالیسی اپنائی تھی اور اس کا پہلا نکتہ افغانستان تھا۔ امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ طالبان پر ترس کھا کر نہیں کیا تھا بلکہ یہ جنگ دیمک کی طرح امریکی معیشت، جنگی صلاحیت، فوجیوں کے مورال اور عوامی اعتماد کو چاٹ رہی تھی۔ افغانستان سے جسمانی اور ذہنی طور پر ناکارہ لوٹنے والے فوجی امریکی معاشرے میں ایک بے چینی اور ہیجان پیدا کرنے کے لیے کافی تھے۔ ایسے میں جب افغانستان میں ایک انچ بھی پیش قدمی نہیں ہو رہی تھی بلکہ طالبان کے ہاتھوں پس قدمی ہی کا سامنا تھا تو امریکی معاشرے میں یہ سوال اُٹھنا فطری تھا کہ پھر تاریخ اور وقت کے برمودہ تکون میں وسائل جھونکنے کی یہ مشقِ ستم تابہ کے؟۔ ایسے میں پاکستان امریکا کی مدد کو آیا تھا اور طالبان اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا گیا جس کا نتیجہ دوحہ معاہدے کی صورت میں نکلا۔
گزشتہ فروری میں امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور طالبان نمائندوں کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ طے ہو گیا تھا کہ امریکا مئی 2021 میں مکمل فوجی انخلا کرے گا۔ اس معاہدے سے امریکا اور افغانستان کی بھارت نواز لابی اور خود بھارت ناخوش تھے اور اسے افغانستان سے بھارت کی مکمل بے دخلی سمجھا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس تاثر کے بعد بھارت اور اس کی پراکسیز کو پلٹ کر وار کرنا ہی تھا جو اب تک جاری ہے۔ جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد ہی دوحہ معاہدے پر نظرثانی کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ اب اس معاہدے کا مستقبل غیر یقینی کی صلیب پر جھولنے لگا ہے۔ معاہدے کے خاتمے کا مطلب افغانستان میں امن کی امید کا خاتمہ ہے اور یہ کیفیت پاکستان کے لیے اچھی نہیں کیونکہ جنگ زدہ افغانستان کے بعد خسارے اور نقصان کا دوسرا شکار ہونے والا ملک پاکستان ہوتا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم کے قومی سلامتی سے متعلق مشیر ڈاکٹر معید یوسف کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ امریکا افغان مسئلہ جبراً حل کرنے کے لیے ہمارے پاس نہ آئے۔ پاکستان کی سرحد پر جنگ واپس نہیں آسکتی یہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے۔ دوحہ معاہدہ افغان فریقوں اور امریکا کے دستخطوں سے ہوا ہے۔ معید یوسف یہ بتا رہے ہیں کہ اب پاکستان افغانستان میں جنگ کو طول دینے یا لڑنے میں امریکا کی مددنہیں کر ے گا اور جنگ جاری رکھنے کے لیے ڈومور کی صدا اب صدا بصحرا ثابت ہو گی۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جوبائیڈن کی نائب صدارت اور صدارت کے پانچ سال کے وقفے میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے۔ عالمی اور علاقائی سیاست کے جو خدوخال اس وقت دھندلے اور ناپائیدار تھے اب بڑی حد تک واضح ہو چکے ہیں۔ کئی ملکوں کی پوزیشنیں اس وقت غیر واضح تھیں اب پوری طرح عیاں اور نمایاں ہو چکی ہیں۔ تمام ملک اپنے مستقبل کے راستوں کا تعین کر چکے ہیں۔ پرانے تعلقات کی کتاب کرم خوردگی کا شکار ہو چکی ہے۔ گوکہ جوبائیڈن نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی تقریر میں افغان مسئلے کا ذکر نہیں کیا مگر امریکا کے افغان امور کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جو بائیڈن کو یہ سوال شد ومد کے ساتھ درپیش ہوگا کہ افغانستان میں قیام طویل کیا جائے گا یا رخت سفر باندھ لیاجائے؟۔ امریکی کانگریس نے اس حوالے سے پالیسی تشکیل دینے کے لیے افغان اسٹڈی گروپ قائم کیا ہے اور اس کی سربراہی امریکا کے سابق چیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ریٹائرڈ جنرل جوزف ایف ڈنفورڈ کو سونپی گئی ہے۔ اس اسٹڈی گروپ کے ماہرین کی رائے ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کے بعد پراعتماد ہو کر مزید کامیابیاں حاصل کیں۔ اب جب گرمیوں کا موسم شروع ہوگا وہ حکومت سے
مزید علاقے چھینتے جائیں گے۔ جب وہ اس طرح کامیابیاں حاصل کریں گے تو انہیں کمپرومائز کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ اسٹڈی گروپ سے وابستہ ایک اور ماہر کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے سے پھرجانا امریکا کی بڑی غلطی ہوگی البتہ فوری انخلا کے بجائے امریکا کو انخلا کی مدت میں مزید چھ ماہ کی توسیع پر علاقائی ملکوں کے ساتھ مل کر کام کر نا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں طالبان سے امریکی فوج کے قیام میں چھ ماہ کی توسیع کی درخواست کرنا چاہیے۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ امریکا اپنے انخلا اور قیام کا کوئی فیصلہ طالبان کی رضا مندی کے بغیر نہیں کرسکتا۔ ہر دو صورتوں میں اسے طالبان کی مدد کی ضرورت ہے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھائے رکھنے اور معاہدے پر قائم رکھنے کے لیے پاکستان کا ساتھ بھی ضروری ہے۔ اس کھیل میں افغان حکمرانوں کا اپنی جوازیت اور وجود پر اصرار ’’ہم پانچ‘‘ والی بات ہے۔
امریکا ٹرمپ کے وعدوں پر قائم رہتا ہے یا ان وعدوں سے انحراف کی نئی پالیسی اپناتا ہے پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ پاکستان اب امریکا کو یہی باور کرارہا ہے کہ امن کی صورت میں وہ امریکا کا شراکت دار تو ہوسکتا ہے مگر جنگ کے ایک اور دور میں پاکستان امریکا کے ساتھ چلنے سے قاصر رہے گا۔ معید یوسف نے ایسے کسی بھی مقصد کے لیے پاکستان کے ساتھ رابطے کی صورت میں امریکا سے پیشگی معذرت کی ہے مگر یہ سوال بھی لوٹ آیا ہے کہ پاکستان اس انکار پر قائم رہے گا یا جنرل مشرف کے دور کی طرح ایک دو دھمکیوں پر اپنا عزم وارادہ بدل دے گا؟۔