حکومتی صفوں میں بھو نچال

474

 گزشتہ کافی دنوں سے ہمارے ملک کا سیاسی موسم خاصہ گرم ہے اپوزیشن رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے حکومتی خامیوں کو اُجاگر کرنے کے لیے مسلسل اپنی مہارتیں استعمال کر رہی ہے حالانکہ اگر اپو زیشن صرف بیٹھ کر خاموشی سے حکومتی کھیل دیکھتی رہتی تو حکومت کے دامن میں ایسا کچھ نہیں کہ جس پر عوام کو مطمئن کر سکے۔ جنہوں نے پی، ٹی، آئی کو ووٹ دے کر اس کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا تھا ملکی معاملات میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے پی، ٹی، آئی سے ناراض ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے وزیر اعظم عوامی مسائل حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرتے لیکن ان کے جارحانہ انداز نے معاملات کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ سیاسی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ سیاست شطرنج کا کھیل ہے اور اس میں سوچ سمجھ کر بڑی دانش مندی کے ساتھ مہرے چلنے پڑتے ہیں۔ ان کے ساتھ جو زیرک سیاست دان ہیں انہوں نے بھی اپنی مہارتوں کو عمران خان کے اقتدار کے لیے استعمال کرنا مناسب نہ سمجھا ممکن ہے ان میں سے کئی خود ہی اس انتظار میں ہوں کہ کب شہ مات ہو اور ان کو اپنی مہارت دکھانے کا موقع مل جائے، جہاں موجودہ حکومت مسائل کے انبار تلے دب رہی تھی وہاں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان اپوزیشن کہ ساتھ مشاورت کا آغاز کرتے تاکہ انہیں مسائل حل کرنے میں کچھ تو آسانی ہوتی اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ایک ہو کر مسائل کے سدباب کی سعی کرتیں تو ملک آج ان افتاد کا شکار نہ ہوتا جن کا آج سامنا ہے۔ حکومت کو مسائل کی دلدل تک پہنچانے میں جہاں سیاسی شعور کی کمی کا سامنا رہا وہیں حکومتی ترجمانوں نے ایسے بڑے اور گہرے گڑھے عمران خاں کے آگے کھود دیے ہیں کہ جنہیں پر کرنا وزیر اعظم کے لیے جوئے شیر لانے سے کم نہیں، عقل مند ہمیشہ کہتے ہیں کہ کم بولنا عقل مندی کی دلیل ہے اور جب لوگ بلا سوچے سمجھے بولنے لگیں تو نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ حکومت کا ہر فرد سوچے سمجھے بغیر روز طرح طرح کے بیانات داغ رہا ہے اس طرح عوام میں حکومت کی ساکھ روز بروز گر رہی ہے۔ حکومت کے پاس ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو ہمارے بھولے وزیر اعظم کو ایک لڑائی کی طرف بہت تیزی سے دھکیل رہے ہیں اس کھیل میں کسی بھی مشیر وزیر اور معاون کا کچھ نہیں بگڑنے والا کیوں کہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو لفظوں کی تجارت کرتے ہیں اور جہاں دام اور کام اچھا مل جائے وہیں سے ٹائٹل بدل کر اپنا کاروبار شروع کر دیتے ہیں، اس قسم کی صورتحال اب تک جو کچھ بھی نقصان ہوا ہے وہ صرف عمران خان کا ہوا ہے۔ کل وہ لوگ جو عمران خان کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے آج ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا ہے جو سمجھتے تھے کہ عمران کو ایک موقع دیا جائے تاکہ ملک میں بہتر تبدیلی آسکے لیکن آج انہیں افراد کی رائے تبدیل ہوتی جارہی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں دیگر طبقات متاثر ہوئے ہیں وہیں جو سب سے زیادہ اور بڑا طبقہ عمران خان کی گورنمنٹ سے متا ثر ہوا ہے وہ گھر داری کرنے والی خواتین کا ہوا ہے اگر معاشرے کی چند خواتین ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ہمارے وزیر اعظم کی تعریف اور توصیف میں زمین اور آسمان ایک کرتی ہیں تو کچن چلانے والی خواتین سے کوئی جا کر پوچھے ان کا تو پورا کا پورا بجٹ متاثر ہو کر رہ گیا ہے، اشیاء ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر کے رکھ دیا ہے۔ بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے آئے دن کہ اضافے نے ملک کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اب ایسے میں حکومت گرانے کے لیے کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں۔ حکومت اب اپنا اخلاقی حق حکمرانی کھو چکی ہے۔ اس کے باوجود بھی حکومتی صفوں سے طرح طرح کے بیانات سرد موسم میں سیاسی حدت میں اضافہ کا سبب بن رہے ہیں۔ کچھ افراد کی عادت ہوتی ہے کہ اپنی اہمیت جتانے اور سامنے والے کو نکو بنانے کے لیے موقع بے موقع بیانات داغتے رہتے ہیں تاکہ سامنے والوں پر لعن وطعن بھی ہو جائے اور شاہ کی نظر میں بات بھی رہ جائے کہ مخالفین کو مطعون کرنے میں ہم بھی آپ کہ شانہ بشانہ تھے اب اگر بیان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر آج کے سیاسی منظر نامے میں نابالغ سیاست دان ہے کون؟
ہمارے ہاں زندگی کہ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد میدان سیاست میں بھی اپنا نام بنانا چاہتے ہیں اب کیسے معلوم ہو کہ فلاں فرد یا میدان سیاست کا نو وارد سیاسی طور پر بالغ بھی ہے یا نہیں یہ تو شاید کسی بھی شخصیت کے افکار اور اس کے بیانات ہی سے اس کی شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ کسی بھی فرد کا بیانیہ ہی اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے کیونکہ عقل مند اور دانا لوگ کبھی کسی چھوٹے اور کم علم کی تضحیک نہیں کرتے لیکن حکمران جماعت کہ پاس ایسے دانشوروں کی کمی ہے جو اس کے ترجمانوں کو آداب گفتگو سمجھائیں سیاست اپنی جگہ جو اصولوں اور نظریات پر ہوتی ہے کسی کے بارے میں غیر موزوں لفظوں کے استعمال سے اپنی شخصیت داغدار ہو جاتی ہے زمانہ شناس افراد بڑ بولے افراد کو اقتدار کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے کیوں کہ کم بولنا دانش مندی کی علامت ہے اور زیا دہ بولنے سے بعض افراد وہ سب کچھ بول جاتے ہیں جس سے حکمرانوں کی صفوں میں ایک سراسیمگی سی پھیل جاتی ہے اور حسن اتفاق ہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی صفوں میں ایسے ترجمانوں کی کوئی کمی نہیں جو خان اعظم کو خوش کرنے کی خواہش میں اپو زیشن کے خلاف وہ بے پر کی اڑاتے ہیں جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی حکومتی ترجمانوں کی جانب سے داغے جانے والے بیانات حکومت کی سبکی کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومتیں ہمیشہ اپنی کارکردگی سے عوام کو مطمئن کرتی ہیں اور نظم و نسق قائم کے قیام میں ادارووں کو ان کے نظم وضبط کے مطابق کام کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں لیکن اگر حکومتیں ہی احتساب کے نام پر قومی سیاست میں حصہ لینے والے افراد کے خلاف کام کرنا شروع کردیں اور سابقہ حکمرانوں کے کیے گئے کاموں میں خامیاں تلاش کرکے ان پر طرح طرح کے الزامات لگانا شروع کردیں تو ملک میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور عام افراد یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اب حکومت اپنے مخالفین کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے مخالفین کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوششیں کر رہی ہے اس طرح کچھ ہو یا نہ ہو ملک کی خاموش اکثریت ضرور حکومتی اقدامات کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتی اور رہی بات کرپشن کی تو اس کے لیے حکومت کو سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے کہ اس کی صفوں میں کتنے ایسے لوگ ہیں جن کے دامن داغدار ہیں جو میدان سیاست میں کیا گل نہیں کھلا چکے، موجودہ حکومت کی صفوں میں شامل ایسے افراد کو حکومتی معاملات سے فارغ کیا جائے جن پر کسی بھی قسم کی کوئی بد معاملگی یہ بددیانتی ثابت ہوجائے۔
سابقہ حکمرانوں کا احتساب کرنے کا یہ طریقہ اب فرسودہ ہو چکا ہے اور ملک اور قوم کو اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا بلکہ جن کو احتساب کے عمل سے گزارا گیا اب ان میں بہت سے دھل دھلا کر شفاف ہو کر ایک بار پھر نظام کا حصہ بن بیٹھے ہیں۔ عوام اچھی طرح جان اور سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم میدان کرکٹ کے تو عظیم کھلاڑی ہو سکتے ہیں لیکن سیاست میں ان کا تجربہ نہ ہونے کہ برابر ہے ۔
اس لیے وہ ایک اچھی ٹیم منتخب ہی نہیں کر سکے جو سیاست کہ مختلف محاذوں پر ان کی رہنمائی کر پاتی بلکہ ان کے نادان ساتھیوں نے ان کو کرپشن کی لال بتی کے پیچھے لگادیا اور ہمارے بھولے وزیر اعظم کو اتنا سخت موقف اپنانے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ جمہوریت کا بہترین سبق مذاکرات ہی بھول بیٹھے، حالانکہ سیاست میں بڑے بڑے مسائل مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوتے ہیں اور جہاں اس کی افادیت سے نظر انداز کیا جاتا ہے وہاں نت نئے مسائل جنم لیتے ہیں اور حکمران اپنے اس طرز عمل سے ملک اور قوم کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ عصر حاضر کی سیاسی صورتحال قطعی تسلی بخش نہیں، عوام مسائل کی چکی میں پسے جارہے ہیں حال یہ ہے کہ اشیاء ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں لوگوں کی قوت خرید جواب دے گئی ہے عوام غربت اور مہنگائی کا شکار ہیں بیروزگاری کا حال یہ ہے کے عوام میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوچلی ہے معاشرے میں خود کشی کا عنصر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ جب وسائل ہی عوام کی دسترس میں نہ رہیں تو ایک غیرت مند فرد اپنی جان ہی داو پر لگا دیتا ہے ان سنگین مسائل اور معاملات پر نہ حکمرانوں کی کوئی نظر ہے اور نہ ان کے مشیروں کے کان پر کوئی جوں رینگتی ہے۔
ہماری قومی بدحالی کہ وجہ ہی عدم برداشت کی پالیسی ہے جب تک حکمران اپوزیشن کو اس کا جائز حق نہیں دیں گے ملک ترقی کی جانب گامزن ہو ہی نہیں سکتا حکمرانوں کی منزل صرف حصول اقتدار ہو تو پھر وہ ذاتی منفعت کے کاموں پر توجہ دے کر عوامی مسائل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اور عوام کو صرف پریشانی اور مشکلات کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ حکمرانوں کی اپنی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں محدود ہوتی چلی جاتی ہیں اور ساتھ ہی عوامی مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کے سبب ملک میں بدامنی اور بے چینی کو فروغ حاصل ہوتا ہے امن عامہ کی صورتحال بتدریج خراب ہوتی جاتی ہے عوام خستہ حال حکمران اور ان کے مصاحبین خوش حال ہوئے جاتے ہیں اور سیاست، سیاست برائے خدمت ہو تو پھر سیاستدانوں کی فکر بدل جاتی ہے ملک میں ترقی کا پہیہ چل پڑتا ہے عوام خوش حال ہونے لگتے ہیں عوام کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے معاشی اشاریے ترقی کی نوید دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔
ہماری سیاست کی روش ہی یہ رہی کہ سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگا کر سیاسی ماحول کو ہمیشہ پراگندہ کیا ہے جس کہ قومی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ادارے من مانیاں کر رہے عوامی حقوق پامال ہو رہے، اس طرح معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہو رہی ہیں اس سنگین صورت حال میں سیاسی قیادت کو اعلیٰ شعور اور بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوت برداشت کے ساتھ عوامی بھلائی اور بہتری کی خاطر مل بیٹھ کر ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنی چاہییں اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کی پالیسی سے گریز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیوں کہ اسی میں سب کا بھلا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں جرم کو ابھرنے کا موقع دیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اداروں کی بہتری کے لیے کام کیا جائے تاکہ ہر ادارہ اپنے فرائض اور ذمے داریاں خوش اسلوبی سے ادا کرے تاکہ جرم و کرپشن کو ابھرنے کا موقع نہ ملے کیوں کہ جرم اور کرپشن کا فروغ پانا دراصل اداروں کی ناکامی کا سبب ہے اور اس طرح دنیا بھر میں ملک اور قوم کی قدر پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔