مشرق وسطیٰ اور بائیڈن انتظامیہ کی ترجیحات

403

ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے صدر ٹرمپ کی صدارت کے آخری ایام میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والے اربوں ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے منسوخ کردیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان معاہدوں میں متحدہ عرب امارات کو 23ارب ڈالر مالیت کے ایف35 جنگی طیاروں کی ڈیل بھی شامل ہے جو اسرائیل کی مخالفت کے باعث کافی عرصے سے تعطل کا شکار تھا لیکن جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلیے تو اسرائیل کی رضامندی سے یو اے ای امریکا سے یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا جسے اب جوبائیڈن انتظامیہ نے منسوخ کردیا ہے، جس کی تصدیق امریکی وزارت خارجہ نے بھی کر دی ہے۔ شاید اسی طرح کے بعض دیگر ممکنہ فیصلوں کے تناظر میں جو بائیڈن کے بطور امریکی صدر انتخاب کے بعد سیاسی تجزیہ کار ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پائے گئے تھے کہ نومنتخب امریکی صدر کو مستقبل کے درپیش امتحانات میں سب سے کٹھن مسائل مشرق وسطیٰ سے متعلق امور میں پیش آ سکتے ہیں۔ جوبائیڈن کے مستقبل کی ترجیحات اور اقدامات پر بحث کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جو بائیڈن کی ٹیم کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اوباما کی انتظامیہ میں شامل رہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لوگ اب نئے احکامات کے ساتھ ان ہی دیرینہ مسائل کو دیکھیں گے جو ماضی میں ان کی ذمے داریوں کا حصہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا امتحان یہ ہو گا کہ انہیں اُن ہی پالیسیوں کو ٹھیک کرکے آگے بڑھنا ہوگا جو ان کی نگرانی میں اوباما نے بنائی تھیں لیکن ٹرمپ کے گزشتہ چار سالہ اقتدار کے دوران تعطل اور پیچیدگیوں کا شکار ہو گئی تھیں۔ اس ضمن میں جوبائیڈن کو جو فوری چیلنج درپیش ہے وہ ایران کے ساتھ امریکا کے تعلقات کو کسی حد تک نارمل بنانا ہے جس میں اہم کردار 2015 میں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے طے پانے والے تاریخی معاہدے کی بحالی کو قرار دیا جارہا ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس معاہدے سے انخلا کے یک طرفہ اعلان کے بعد اب تک ہوا میں معلق ہے۔ اسی طرح یمن میں جاری جنگ جس میں امریکا کھل کر سعودی اتحاد کا ساتھ دیتا رہا ہے بھی نئی امریکی انتظامیہ کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور لاکھوں شہری دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
نئی امریکی انتظامیہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلکن جو ایک عرصے تک بائیڈن اور اوباما کے مشیر رہے ہیں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کسی ممکنہ معاہدے کے ذریعے ایران کو خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والی پالیسیوں اور بلاسٹک میزائل پروگرام سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ واضح رہے کہ ان دونوں معاملات پر امریکا کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی یورپی طاقتوں کو بھی تشویش ہے لہٰذا یہ امر یقینی نظر آتا ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ یہ نہیں چاہے گی کہ وہ 2015 میں ہونے والا ایک ایسا معاہدہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دے جس کو بین الاقوامی سفارت کاری کی تاریخ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب سے واشنگٹن جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر علٰیحدہ ہوا ہے تب سے ایران آہستہ آہستہ اپنے جوہری پروگرام کو محدود رکھنے کی یقین دہانیوں سے پیچھے ہٹتا رہا ہے جس کا واضح ثبوت حال ہی میں ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کی سطح 20 فی صد تک لے جانے کا اعلان ہے۔ دوسری جانب ایران کی قیادت کئی مرتبہ اس بات کا اعادہ کر چکی ہے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ امریکا بھی معاہدے کے تحت اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ کو مشرق وسطیٰ کے تناظر میں یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کی معاونت سے ہاتھ کھینچنا، عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال جس میں مخالفین کو قید میں رکھنے اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ بھی شامل ہے جیسے چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے کافی حد تک یقین سے
کہا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کا حکم ایک اعلیٰ سعودی راہنما نے دیا تھا حالانکہ سعودی عرب ایسے کسی الزام کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اکثر تجزیہ کار جوبائیڈن کی متوقع مشرق وسطیٰ پالیسی اور اس ضمن میں ان کی مجوزہ ترجیحات کو تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف قراردے رہے ہیں۔
دوسری جانب بعض حلقے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اکثر فیصلوں سے اختلافات کے باوجود ان کے ’ابراہیم ایکارڈ‘ کی تعریف بھی کررہے ہیں جس کے تحت پچھلے چند ماہ کے دوران کئی عرب ریاستوں بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین، اومان، سوڈان، مراکش اور اسرائیل کے درمیان معمول کے سفارتی تعلقات استوار کیے گئے ہیں جس کے متعلق کچھ عرصہ پہلے تک سوچنا بھی محال تھا لیکن اب نئے امریکی وزیر خارجہ بیلکن نے کہا ہے کہ وہ ان معاہدوں میں کیے گئے کچھ وعدوں پر نظر ثانی کریں گے جن میں متحدہ عرب امارات کو جدید ترین جنگی طیاروں اور اسلحے کی فروخت کے معاملے سے لے کر مراکش کی مغربی صحارا کے متنازع علاقے پر خود مختاری کو تسلیم کرنے جیسے وعدے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عراق، لیبیا، شام اور لبنان کے حالات نیز فلسطین کے دو ریاستی حل کے علاوہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی وہ دیگر معاملات ہیں جن پر جوبائیڈن انتظامیہ کو توجہ دینا ہوگی۔