اسلامی بینکاری کو مکمل غلط کہنا درست نہیں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے

1288

کراچی (رپورٹ :قاضی جاوید)اسلامی بینکاری کتنی اسلامی ہے؟ کے جواب میں مفتی منیب الرحمن نے کہا کہ کام ابھی جاری ہے لیکن مکمل غلط نہیں کہاجاسکتا ہے ہماری کوشش تو یہی ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھنے کے بجائے پورے نظام کی اصلاح کے لیے عملی اقدام کیا جائے۔ باقی پروڈکٹ پر بحث کرنا کہ میزان بینک کی یہ پروڈکٹ ٹھیک نہیں، فلاں کا وہ ٹھیک نہیں، اس کی ضرورت نہیں ۔ اس کے لیے اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ اور اسی طرح بینکو ں کے اپنے شریعہ بورڈ موجود ہیں۔ ایک میٹنگ میں فنانشل بینکوں اور اسلامی بینکوں کے ایگریمنٹس میں فرق پیش کیا گیا تو میں نے کہا آپ نے اس پر اتنی محنت کی، آخر اس کا کیا فائدہ یا تو تمام بینکوں کو یہ بھجوادیں اور انہیں کہیں کہ دو، چار سالوں میں آپ اسلامک بینکنگ میں تبدیل ہونا چاہیں تو ہو جائیںابھی تک اسٹیٹ بینک کی دیگر بینکوں کے لیے جو کم از کم کیپیٹل ریکوائر منٹ ہوتی ہے وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ میں نے بار ہا کہا کہ جب آپ اسلامی بینکوں کے لیے بھی وہی ریکوائر منٹ رکھیں گے جو دوسروں کے لیے تو وہ کیپٹل پورا کرنے کے لیے دوڑیں گے۔ ان کو کچھ رعایت دینی چاہیے۔ اسی طرح ابھی تک قوانین میں FBR کے توسط سے کوئی ترامیم بھی نہیں ہوسکیں،اسلامی بینکا ری نیک مقصدہے، اللہ کرے پورا ہو جائے۔اصل میں جب تک ہم ذہن میں یہ نہیں سوچیں گے کہ ہم حرام سے حلال کی طرف آ رہے ہیں تو اس میں کچھ نفع کم لے لیں، کچھ نقصان برداشت کر لیں اس وقت تک معاملہ یوں ہی رہے گا۔ میں نے کسی دین دار کو اسلامک بینک کی طرف نقصان برداشت کرکے آتے نہیں دیکھا کہ وہ محض حرام سے بچنے کے لیے اسلامی بینک کی طرف آتا ہے ۔ بینکوں کی مہارت یہ نہیں ہے کہ کوئی گاہک کہے حبیب بینک والے 11فیصد سود دیتے ہیں اور آپ اس کو ساڑھے 11یا پونے 12پر راضی کر کے روک لیں بلکہ بینکوں کی مہارت تو یہ ہے کہ آپ اسے بتائیں وہ حرام ہے،اگر حلال کام میں تھوڑا منافع بھی ہو تب بھی کھاتے دار کے لیے بہتر ہو گا اور اللہ برکت ڈالے گا، لیکن ناجائز نہ کریں۔ ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اسلامی بینکنگ میں جو لوگ ہیں وہ زیادہ تر سودی کارروبار کر نے والے بینکوں سے آئے ہوئے ہیں، وہاں ان کی کم تنخواہ تھی تو یہاں بہت زیادہ ہے۔ لیکن نظریاتی لوگوں کی بینکوں میں کمی ہے۔اس کمی کو دور کرنے کی ضرورت بھی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بھی بہتری آ رہی ہے۔ اسلامی بینکاری کتنی اسلامی ہے؟ کے سوال کے جواب میں گلو بل اسلامک فنانس اسٹینڈرڈ بحرین کے سیکرٹری عمر مصطفی انصاری نے بتایا کہ سب سے پہلے یہ بات قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ رباکی ممانعت میں قرآن و حدیث کا لہجہ بہت سخت ہے۔ شرک کے علاوہ کسی اور گنا ہ کے لیے اتنی سختی کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ علماء کی رائے یہ بھی ہے کہ شرک عقائد اور سود اعمال میں بدترین گناہ ہے۔ اس سے بڑھ کر کسی گناہ کے بارے میں اس قدر سختی نہیں ہو گی اس گناہ کے کرنے کا مقصد ” اللہ ا ور اس کے رسول ؐکے خلاف اعلان جنگ ِ کہا گیا ہے اور اس گناہ کا مرتکب قرآن مجید کے قول کے مطابق ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اس گناہ کو احادیث رسول اللہ میں معاذاللہ اپنی ماں سے زنا سے بد تر قرار دیا گیا ہے۔پاکستان میں اسلامی بینکاری کے واضح طور پر دو الگ دور ہیں ۔پہلے دور میں جنرل محمد ضیاء الحق کے دور حکومت میں بلا سودی بینکاری نظام نافذ ہو ا دوسرا ماضی قریب میںکمرشل بینک اور روایتی کمرشل بینکوں کی اسلامی بینکاری کے لیے مختص شاخیں کھولی گئیں اور اب اس مقصد کے لیے پورے بینک کام کر رہے ہیں۔ جنرل ضیا الحق اور ان کے ساتھیوں کی نیت صاف تھی مگر ان کا متعارف کروایا ہوا نظام وہ ثمرات بار نہ لا سکا جن کی اس سے امیدیں باندھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود اس کو ناکام کہنا اس لیے غلط ہو گا کہ یہ اپنی طرز کا پہلا تجربہ تھا اور اس کے بعد ساری دنیا کے ماہرین کو اسلامی بینکاری اور اسلامی مالیات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی ۔ اسی شروعات کی وجہ سے آج ہم اس قابل ہیں کہ اسلامی بینکاری کو رائج کر سکیں اسلامک بینکاری کا نظام 1980میں شروع ہوا اور آج موجودہ بینکاری نظام میں اسلامک بینکنگ کا حصہ20فیصد سے 30فیصد ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامک بینکنگ میں ایس ایم ایز، ایگریکلچرل، ایکسپورٹ اور مائیکرو فنانسنگ میں نئے پروڈکٹس متعارف کرائے جائیں ۔ اسٹیٹ بینک چھوٹے درجے کی صنعتوں کے لیے اسلامک بینکوں کو فنانسنگ کے اہداف دے تاکہ ایس ایم ایزکو فروغ دیا جاسکے۔اب اس سلسلے میں سودی قوانین بہتر کیے گئے ہیں ۔لیکن اس میں بہتری کی ابھی بھی بہت گنجائش موجود ہے ۔ گلو بل اسلامک فنانس اسٹینڈرڈ اس سلسلے میں علماء کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے اس عالمی فورم میں دنیا کے 150 ممالک سے علماء منسلک ہیںاور اس میں بہت ساری بہتری روزآنہ بنیاد پر کی جاتی ہیں۔اسلامی بینکاری کتنی اسلامی ہے؟ کے جواب میں رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کی شرعیہ فیکلٹی کے سر براہ ڈاکٹر ایوب نے کہا کہ ملک کا موجودہ نظام ڈاکٹر عشرت حسین اور سابق وزیر اعظم کا بنایا ہو ا ہے جس میں سودی اور غیر سودی بینکاری کی شکل و صورت مختلف بنانے کے بجائے یکساں کر دی گئی ہے اور اس سے حرام حلا ل کو ملانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے30جون 2001ء کوحکومت اور اسٹیٹ بینک سے کہا تھا وہ سودی معیشت اور بینکاری نظام کو یکسر ختم کرتے ہو ئے اس کو اسلام کے اصولوں کے مطابق بنایا جائے لیکن اس وقت کے گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ان کی دلیل یہ تھی کہ بینک میں سود نہیں منافع ہو تا ہے ۔ایک سوال کے جو اب میں انہوںنے کہا کہ عدالت عظمیٰکے حکم پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں امتیاز عالم حنفی کمیشن بنایا گیا جس نے پورے بینکاری نظام کو اسلامی سانچے میں ڈھا لتے ہو ئے اس کو اسلامی بینکا ری قوانین میں تبد یل کر کے اسٹیٹ بینک کے حوالے کر دیا تھا لیکن ان قوانین کو عملی طور پر ابھی تک نافذ نہیں کیا گیا ۔انہوںنے کہا کہ موجودہ اسلامی بینکا ری کے شرعی قوا نین کے لیے خطرناک ہیں اور اس سے بچنا ضروری ہے ۔ ان قوانین کو علماء آئی یو بحرین سے سرٹیفائیڈ کر رہے ہیں۔اسلامی بینکاری کتنی اسلامی ہے؟کے جواب میں اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر ارشد شہزاد نے کہا کہ موجودہ اسلامی بینکاری کو مکمل حرام کہنا80ضربِ صفر برابر صفر ہو گا لیکن مکمل اسلامی بھی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ اسلامی بینکاری دلی دور است کی بات درست ہے لیکن حرام کہنا نظام کے لیے تباہ کن ہوگا۔اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک نے بہت کام کیا ہے اور اب بھی جاری ہے ۔ اسٹیٹ بینک اور دیگر بینکوں کی شرعیہ بورڈ میں صلاحیت میں مزید اضافے کی ضرورت ہے اور اس کو جس قدر جلدی مکمل کیا جائے گا اسلامی بینکا ری بہتر ہو گی اور اس پر اسٹیٹ بینک کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس میں مزید کام کی ضرور ت ہو گی۔جسارت نے سود کے خلاف فیصلہ دینے والے معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی سے بھی اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا لیکن وہ اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے گفتگو نہیں کر سکے ۔ان کا کہنا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔