پیر پگارا: چند یادیں

757

کراچی میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں میں سب ہی کنگری ہاؤس سے واقف ہیں، نیشنل اسٹیڈیم سے شاہراہ فیصل کی جانب چلیں تو دائیں طرف کنگری ہاؤس اپنی اسی شان و شوکت سے موجود ہے جیسے پیرپگارا شاہ مرداں شاہ کے دور میں تھا۔ اگرچہ اب موجودہ پیر پگارا شاہ صبغت اللہ وہاں جلوہ افروز ہیں، لیکن پہلے جیسی رونقیں اب نہیں رہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے دور کی ان سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں، جب میں پی ٹی وی میں نیوز پروڈیوسر تھا اور ان کی نیوز کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں میں جایا کرتا تھا۔ پیر پگارا مرحوم مجلسی شخصیت تھے، شگفتہ مزاج اور بہت مہمان نواز تھے۔ ایک دن میں ان کی کسی نیوز کانفرنس میں موجود تھا، میں ان سے کسی قسم کا سوال نہیں کرتا تھا، مجھ سے فرمانے لگے کہ بابا، تم کوئی سوال نہیں کرتا ہے؟، کیا تم انٹیلی جنس کا آدمی ہے؟ (ازراہِ تفنن)۔ اس پر وہاں موجود صحافیوں کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ایک دن پروگرام کے بعد پرتکلف کھانے کا اہتمام تھا، مجھ سے کہنے لگے کہ کھاؤ بابا۔ لوگ تو پاکستان کو کھا گئے اور تم کھانا کھاتے میں شرماتا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے فرائی مچھلی کی ڈش میری جانب بڑھائی، وہ اپنے ہر مہمان سے اسی طرح پیش آیا کرتے تھے۔
مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سی اہم شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، لیکن میں نے ان کے ساتھ فوٹو یا سیلفی بنانے سے گریز کیا ان چیزوں کا شوق ہی نہیں تھا لیکن پیر صاحب پگارا کے ساتھ میں نے ایک فوٹو ضرور بنوائی تھی وہ اب بھی میرے ریکارڈ میں موجود ہے۔ 10 جنوری 2012 کو معلوم ہوا کہ پیرپگارا صاحب کا پیر جوگوٹھ میں انتقال ہوگیا، بہت افسوس ہوا، اس سے زیادہ افسوس یہ ہوا کہ میں ان کے سفر آخرت کی نیوز کوریج کے لیے پیر جو گوٹھ نہیں جاسکا۔ کچھ آفس کے معاملات تھے۔ مجھے وہ اس لیے پسند تھے کہ وہ ایک ایسی عظیم شخصیت یعنی پیر صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف سورہیہ بادشاہ کے صاحبزادے تھے جنہوں نے انگریز راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ شاہ مرداں ثانی پیر پگارا ۲۲ نومبر ۱۹۲۸ کو پیرجوگوٹھ میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج میں انیس سو بیالیس میں حُر ایکٹ نافذ کر کے حروں کو دہشت گرد قرار دیا گیا اور پیر صبغت اللہ شاہ کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر کے ۲۰ مارچ ۱۹۴۳ کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دے دی گئی اور اس کے ساتھ ہی گدی کو معطل کردیا۔ اس کے باوجود ان کے ساتھیوں نے گوریلا کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۱۹۴۶ میں پیر صبغت اللہ شاہ کے فرزند شاہ مردان شاہ کو برطانوی حکومت نے پہلے علی گڑھ میں داخل کرایا بعد میں لندن میں نظر بند کردیا اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ تاہم لندن میں ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔
۱۹۴۹ میں ملک کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان نے لندن میں پیر پگارا سے ملاقات کی اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وہ پاکستان واپس آ جائیں تو ان کی گدی بحال کردی جائے گی۔ اس یقین دہانی کے بعد وہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ۱۹۵۲ میں وطن واپس آئے جس کے بعد گرفتار حروں کو رہائی ملی۔ ۴ فروری ۱۹۵۲کو پیر پگارا کی گدی بحال کی گئی۔ اس موقع پر خیرپور کے علاقے پیر جو گوٹھ میں ایک شاندار تقریب میں شاہ مردان شاہ کی پیر پگارا کی حیثیت سے تاج پوشی کی گئی۔ ۱۹۶۵کے صدارتی انتخاب میں انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بجائے فیلڈ مارشل ایوب خان کا ساتھ دیا۔ ۱۹۹۱ میں اختلافات کے بعد مسلم لیگ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور پیر پگارا نے مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے اپنی جماعت بنا لی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس وقت بھی پیر پگارا نے اپنی جماعت کو اس میں ضم ہونے نہیں دیا۔
پیر پگارا منفرد اسٹائل کے مالک تھے۔ وہ سگار پیتے اور گھوڑوں کی دوڑ اور شکار کا شوق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں علم فلکیات سے بھی رغبت تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے میکاؤ توتا بھی پال رکھا تھا جس سے وہ ایک نجومی کا روپ لگتے تھے۔ وہ لبرل خیالات رکھتے تھے۔ روحانی پیشوا ہونے کے باوجود وہ مذہبی تبلیغ نہیں کرتے تھے اور سال میں ایک دو بار پیر جو گوٹھ میں اپنی حویلی کی محراب سے اپنے مریدوں کو دیدار کرایا کرتے تھے۔ پیر پگارا پاکستانی فوج کے قریب تصور کیے جاتے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ میں جی ایچ کیو کا آدمی ہوں۔ ان کی حر جماعت پاک فوج کے ساتھ ۱۹۶۵ اور ۷۱ کی جنگوں میں شریک تھی۔ حر جماعت آج بھی ایک ریزرو فورس تصور کی جاتی ہے جو باقاعدہ تربیت یافتہ ہے۔ پیر پگارا اکثر ذو معنی بات کیا کرتے۔ حکومت کے مستقبل کے بارے میں جب بھی ان سے سوال کیا جاتا تو ان سے ہمیشہ یہ جواب سننے کو ملتا تھا کہ مارچ میں ڈبل مارچ ہوگا یا ستمبر ستمگر ثابت ہوگا۔
۲۲ نومبر ۲۰۱۱ کو ان کی آخری سالگرہ کے موقع پر غیر یقینی سیاسی صورت حال کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انتخابات ہوں گے؟ تو ان کا جواب تھا کم سے کم ان کی زندگی میں تو نہیں ہوں گے۔ پیر پگارا اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ابتدا میں دوستی رہی مگر بعد میں دونوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے حادثے میں وفات کے بعد جب ۱۹۸۸میں انتخابات ہوئے تو پیر پگارا کو پیپلز پارٹی کے امیدوار سید پرویز علی شاہ نے شکست دی جس کے بعد وہ کبھی بطور امیدوار سامنے نہیں آئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو وہ یہ کہہ کر چھیڑتے تھے کہ بلاول ان کی جماعت میں شامل ہوں گے اور یہ وہ اس وقت سے کہہ رہے تھے جب بلاول کی پیدائش ہوئی تھی۔ پیر پگارا نے دو شادیاں کیں اور ان کے چار بیٹے ہیں جن میں پیر صبغت اللہ شاہ راشدی، علی گوہر شاہ اور صدر الدین شاہ سگے بھائی ہیں۔ پیر پگارا کی پہلی بیوی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی پھوپھی تھیں جنہیں انہوں نے طلاق دے دی بعد میں دوسری شادی کی۔