وہ لوٹ کر کھا گئے اور آپ بیچ رہے ہیں

906

پی ٹی آئی حکومت اپنے قیام کے وقت سے ایک قوالی میں مصروف ہے وہ یہ ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری ملک لوٹ کر کھا گئے۔ ایک ملک سے بھاگ گیا ہے۔ عمران خان اور ان کی ٹیم کے اس بیان یا اس قوالی میں بڑی حد تک صداقت ہے۔ بڑی حد تک یوں کہ جو کچھ ان لوگوں نے نہیں کیا وہ بھی پی ٹی آئی ان ہی کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔ یوں یہ قوالی چلی آرہی ہے کہ وہ لوٹ کر کھا گئے۔ لیکن تین سال قبل اور 8 سال قبل اقتدار سے چلے جانے والوں پر آج بجلی، پیٹرول، آٹے، چینی، مہنگائی، بیروزگاری، اداروں کی تباہی وغیرہ کا الزام لگانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ تین برس میں تو ان خرابیوں میں بہتری آنا شروع ہونی چاہیے تھی۔ لیکن پوری قوم صرف یہی سن سن کر تھک گئی ہے پچھلے حکمران چور تھے۔ پوری قوم کو یہ یقین ہے کہ وہ چور ہی تھے لیکن اب پاکستانی عوام کیا کریں۔ اس کا اگلا بیانیہ سنیں جو محض بیانیہ نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی حکومت تیزی کے ساتھ اس کام میں مصروف ہے اور وہ ہے قومی اداروں کو بیچ بیچ کر ٹھکانے لگانا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ حکومت نے مزید 9 اہم ادارے فروخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان اداروں میں بینکوں سمیت دیگر ادارے ہیں بلوکی پاور پلانٹ بھی ہے لیکن زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان اداروں میں ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن بھی شامل ہے یہ ادارہ تو غریب اور کم آمدنی والوں کو اپنی چھت کے حصول کے لیے آسانیاں فراہم کرتا تھا۔ برسہا برس سے ہائوس بلڈنگ کے قرض کی بنیاد پر لوگ اپنا مکان بنا رہے تھے اب تو بلا سود قرضوں کا سلسلہ بھی چل رہا تھا۔ وزیراعظم پاکستان نے دو مرتبہ تعمیراتی صنعت کو خصوصی پیکیج دینے اور پورے ملک کے تعمیراتی شعبے کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن جو آسان اقساط اور آسان شرائط پر عوام کو قرض دیتی تھی تاہم گزشتہ کئی برس سے یہ قرضے کم لوگوں کو مل رہے تھے اس کا فیض عام نہیں تھا۔ اس کے اسباب کی بھی تحقیق ہونی چاہیے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس کی نجکاری کے بعد وہی حال ہوگا جو کے ای ایس سی کی نجکاری کے بعد ہوا ہے۔ کے الیکٹرک کو عوام کی کھال اتار کر سربازار لٹکانے کی کھلی چھوٹ ملی گئی ہے۔ کوئی ادارہ اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا بلکہ ہمت نہیں کرتا کیونکہ یہ ادارہ بیچنے سے قبل ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے لیڈر خود بک گئے تھے۔ جس کے بدلے ان پارٹیوں کے لیڈروں کے بیٹے، بیٹیوں اور رشتے داروں کو کے الیکٹرک میں بھاری معاوضوں پر ملازمتیں دی گئیں کسی اور رشوت کا ثبوت تو نہیں لیکن لوگوں کے ناموں سے سب واقف ہیں جن کے رشتے داروں کو ملازمتیں ملیں اور اب کراچی کے عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔ ویسے تو سارے ملک میں بجلی، پیٹرول اور مہنگائی کا طوفان ہے لیکن کراچی میں کوئی شنوائی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ لوگ کے الیکٹرک کے معاملے میں عدالت جانے سے بھی گھبراتے ہیں وہ تو بھلا ہو حافظ نعیم الرحمن کا کہ وہ اور ان کی ٹیم میدان میں نکل کھڑے ہوئے ورنہ کوئی آواز ہی نہیں اٹھتی تھی۔ اب اگر ایچ بی ایف سی اور بلوکی پاور پلانٹ فروخت کر دیں گے تو یہ دونوں ایسے ادارے ہیں جو عوام کے لیے سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ سروسز دینے والے اداروں کو اس طرح فروخت کرنے کا کیا مطلب ہے۔ تعمیراتی شعبے کے ذمے دار اس حوالے سے اپنا ردعمل سامنے لائیں تاکہ پتا چلے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ ایچ بی ایف سی کی نجکاری کا نتیجہ مکانات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو سکتا ہے۔ نجی شعبے کا کوئی ادارہ ایچ بی ایف سی کی طرح قرض نہیں دے سکتا۔ نجی ادارہ تو لوٹ مار کرے گا جس طرح بینک سود در سود کا دھندا کرتے ہیں۔ اسی طرح نجی شعبے کا ایچ بی ایف سی تباہی لا سکتا ہے لہٰذا عوام کے حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ اس عمل کو محض پی ٹی آئی کا ایجنڈا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل، پی ٹی سی ایل، کے الیکٹرک وغیرہ یہ سب گزشتہ حکمرانوں، جن کو وزیراعظم چور کہتے ہیں کا بھی ایجنڈا تھا۔ اور پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ گویا پی ٹی آئی والے بھی اسی ڈگر پر ہیں۔ سابقہ حکمرانوں نے ملک کو لوٹا اور پی ٹی آئی ملک کو بیچ رہی ہے۔ نقصان دونوں صورتوں میں عوام ہی کا ہو رہا ہے۔ آپ خواہ کچھ بھی کرلیں ہمارے حکمران ایجنڈے پر کاربند رہیں گے۔ یہ ایجنڈا نواز شریف یا آصٖف زرداری کا نہیں پی ایم ایل اور پی پی پی کا نہیں۔ یہ عالمی بینک، آئی ایم ایف اور عالمی ساہو کاروں کا ہے۔ ان کے لوگ حکومت میں بھی ہیں اداروں میں بھی۔ اگر خسارہ ہی بنیاد ہے تو پاکستان کی کسی حکومت نے شاید ہی کوئی بجٹ ایسا بنایا ہو جو خسارے سے پاک ہو۔ جب ہر حکومت خسارے کا بجٹ بناتی ہے تو حکومت اور اسمبلی کی نجکاری کرنی چاہیے۔ یہ کام نجی شعبے کو دیا جائے کہ وہ اسمبلی بھی چلائے اور بجٹ بھی بنائے۔ پھر پتا چلے گا جب ان پارٹیوں کی مافیائوں کو کھانے پینے کا موقع نہیں ملے گا۔ ہر سودے میں کمیشن ہر چیز کا پیسہ، کہاں تک لوٹیں گے یہ لوگ۔