اخلاقی زوال کی انتہا

698

ایک پاکستانی نے اپنی والدہ کا امریکا میں لائف انشورنس کروایا ان کی والدہ کو امریکی شہریت حاصل تھی کچھ عرصے بعد پاکستان آگئیں کچھ مدت کے بعد ان کے بیٹے نے کچھ کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر اپنی والدہ کی موت کے کاغذات جمع کراکے انشورنس کمپنی سے لاکھوں ڈالرز وصول کرلیے، کچھ برسوں کے بعد وہ خاتون امریکا جانے کے لیے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کاغذات بنوانے گئیں تو سفارت خانے کے ریکارڈ میں وہ خاتون مرچکی تھیں۔ اس طرح فراڈ کا یہ کیس پکڑا گیا، خاتون نے پولیس کو یہ بیان دیا کہ مجھے اس کا کچھ پتا نہیں۔ دوسرا دلخراش واقعہ لاہور کا ہے جہاں 14برس کے ایک لڑکے نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پہلے بد فعلی کی پھر اس کے سر پر پتھر اور اینٹیں مار کر اسے ہلاک کردیا، جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو اس نے جواب دیا کہ یہ گھر میں میری شکایت لگاتا تھا۔
ایک شخص نے اپنی دو معذور بیٹیوں کو قتل کرکے خود کشی کرلی اس کی بیوی بھی معذور اور گونگی تھی اس نے اشاروں میں بتایا کہ اس کا شوہر اپنی بچیوں سے بہت محبت کرتا تھا پچھلے دنوں اس کو دل کا دورہ پڑا اس نے سوچا میں اگر مرگیا تو ان معذور بچیوں کی دیکھ بھال کون کرے گا، اسی لیے اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ اس طرح اور بھی دلدوز سانحات ہوئے ہیں جن سے ہمیں معاشرے کے اخلاقی زوال کا پتا چلتا ہے پھر ایسے واقعات تواتر کے ساتھ ہو رہے ہیں کہ جن میں کوئی بچہ یا بچی اغوا ہوتے ہیں ان کے ساتھ برا کام کر کے انہیں قتل کردیا جاتا ہے۔ معذور بچیوں کے قتل والا واقعہ تو اس سے الگ ہے کہ اس میں قاتل کی ذہنی فرسٹریشن کا عمل دخل ہے۔ لیکن دیگر واقعات میں یہ سوال بنتا ہے کہ ایسے واقعات ہمارے ملک میںکیوں تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں ہم جب ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں تین قسم کی صورتحال سامنے آتی ہے۔ ایک تو یہ کہ آوارہ بدمعاش اور بے راہروی کا شکار لوگ پہلے اغواء، بدفعلی اور قتل کرتے ہیں جیسے لاہور کے چودہ برس والے لڑکے کا کیس۔ دوسری قسم کی واردات جو کسی وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر یا کسی ذہنی فرسٹریشن کا شکار ہو کر اپنے ہی پیاروں کو قتل کردینا جیسا کے معذور بچیوں کے قتل والا واقعہ۔ تیسری قسم قتل کی وہ ہوتی ہے جو ریاست یا ریاستی اہلکاروں کی طرف سے ہوتی ہے جیسا کہ اسلام آباد میں نوجوان ستی کے قتل کی واردات جس میں پانچ پولیس والوں نے اپنے انتقامی جوش کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر ایک نوجوان کو برسرعام گولیوں سے بھون ڈالا۔
کچھ برس قبل ایسا ہی بہت ہولناک واقعہ ساہیوال میں ہوا تھا جس میں پولیس اہلکاروں نے ایک کار میں بیٹھے ایک ہی خاندان کے افراد جو شادی میں جارہے تھے انہیں دہشت گرد قرار دے کر بیدردی سے قتل کردیا، خوش قسمتی سے دو بچے زندہ بچ گئے یہ وہ بچے ہیں جو ساری زندگی روز جیئیں گے اور روز مریں گے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ماں باپ کو اور بہنوں کو مرتے ہوئے دیکھا۔ اس سانحے پر بڑا شور مچا۔ سانحے کے مجرمان بھی پکڑے گئے وہ سب سزا سے بچا لیے گئے کہتے ہیں کہ مقتول کے خاندان والوں نے ان اہلکاروں کو معاف کردیا۔ ہم نے آج تک اس طرح کے واقعات میں کسی سرکاری اہلکار کو سزا پاتے نہیں دیکھا۔ کئی سال پہلے سرفراز نامی ایک نوجوان کو رینجرز کے اہلکاروں نے ڈاکو قرار دے کر گولیوں سے بھون دیا اتفاق سے ایک اخباری فوٹو گرافر نے اس سانحے کو اپنے کیمرے میں فلم بند کرلیا عدالت میں اس کا مقدمہ چلا ایک اہلکار کو سزائے موت اور بقیہ عمر قید اور کچھ مدت کی قید کی سزائیں دی گئیں کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ مقتول کے خاندان پر دبائو ڈال کر انہیں راضی نامے پر مجبور کیا گیا اور پھر سارے لوگ رہا ہو گئے۔
کئی سال پہلے کی بات ہے جو ہم آپ کے ذہنوںمیں تازہ کرنا چاہتے ہیں اندرون سندھ کے کسی علاقے میں ایک حاضر فوجی اہلکار نے پانچ افراد کو دن دہاڑٖے قتل کردیا اور کہا گیا کہ یہ ڈاکو تھے جو مقابلے میں مارے گئے حقائق کی جب چھان بین کی گئی تو پتا چلا کہ اس فوجی سے اس کی خاندانی چپقلش چل رہی تھی اس فوجی کی سندھ میں ڈیوٹی لگی تھی اس نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنے انتقامی جوش کو ٹھنڈا کرلیا۔ وہ چونکہ حاضر سروس اہلکار تھا اس لیے اس کا کورٹ مارشل کیا گیا اور اسے موت کی سزا سنادی گئی کچھ درمیان کے لوگوں نے مقتول کے خاندان والوں سے مفاہمت کی کوشش کی اور دیت لینے پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن مقتول کا خاندان تیار نہیں ہوا لیکن یہ بات کہیں سننے اور دیکھنے میں نہیں آئی کہ مقتول کے خاندان پر کوئی دبائو ڈالا گیا ہو اور پھر اس فوجی اہلکار کو موت کی سزا دے دی گئی۔
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک بچے پپو کو پانچ لوگوں نے اغوا کیا اس کے ساتھ بد فعلی کرکے اسے قتل کردیا ان پر مقدمہ چلایا گیا ان پانچوں کو موت کی سزا دی گئی عدالت عظمیٰ تک نے ان کی اپیل مسترد کرکے سزا برقرار رکھی ضیاء صاحب نے بھی ان کی رحم کی اپیل منظور نہیں کی پھر ان پانچوں کو شارع عام پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس واقع کے کافی عرصے بعد تک پورے ملک میں اس حوالے سے کوئی واقعہ منظر عام پر نہیں آیا۔ دیگر ممالک میں تو یہ بات دیکھی گئی ہے کہ کوئی سرکاری اہلکار کوئی جرم کرتا ہے تو اسے کسی عام شہری کی بہ نسبت زیادہ سخت سزا دی جاتی ہے اور ہمارے یہاں سرکاری اہلکاروں کو ہماری ریاست ہی بچانے کی کوشش کرتی ہے پیٹی بھائی اپنے پیٹی بھائیوں کا ساتھ دیتے ہیں اسلام آباد میں جس نوجوان ستی کو سرعام مارا گیا ہے اس کے والد سے عمران خان نے بھی ملاقات کرکے انصاف کا یقین دلایا ہے۔ موجودہ حکومت اسی قتل کو ایک ٹیسٹ کیس بنا لے کہ اب تو انکوائری کمیٹی کی رپورٹ بھی آگئی ہے کہ یہ قتل انتقامی جذبات میں کیا گیا لہٰذا ان تمام اہلکاروں کو اگر عدالت موت کی سزا دیتی ہو تو انہیں اسلام آباد میں اسی جگہ پر پھانسی دی جائے جہاں اس کا قتل ہوا اگر ساہیوال کیس کے مجرمان کو عبرتناک سزائیں دے دی جاتیں تو شاید اسلام آباد کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔