تعاون کی نئی مثلث یا نئی صبح؟

478

دنیا کے تشکیل پزیر منظر نامے میں عالمی سیاست کی بساط پر بھرپورکھیل جاری ہے۔ مہرے آگے پیچھے ہو رہے ہیں۔ پوزیشنیں بدل رہی ہے۔ اعصاب کی ایک جنگ جاری ہے۔ ایسے میں ترکی، پاکستان اور آذربائیجان کے وزرائے خارجہ کا اسلام آباد میں اکٹھ، مختلف شعبوں میں تعاون کے امکانات کا جائزہ اور ساتھ چلنے کے عہدو پیماں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ترک وزیر خارجہ میولت چاوش، آذربائیجانی وزیر خارجہ جیہان براموف اور شاہ محمود قریشی کے درمیان اسٹرٹیجک تعاون کونسل کی سطح پر ہونے والی ملاقات اور فیصلے مسلمان دنیا کے لیے خاصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ترک وزیر خارجہ اپنے ہمراہ فنکاروں کی ایک ٹیم بھی لائے تھے جس کی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ خصوصی ملاقات بھی ہوئی اور ارطغرل غازی ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور ترکی نے ’’ترک لالہ‘‘ کے نام سے ایک اور ڈراما تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ ترک لالہ مسلم برصغیر کا وہ بہادر کردار تھا جو پین اسلام ازم کے تصور کے تحت عثمانی خلافت کو بچانے کے لیے ترکی گیا اور پھر وہیں مقیم ہو گیا۔ یہ مسلم برصغیر اور ترکی کے درمیان تاریخی تعلق کو اُجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ترک وزیر خارجہ کو پاکستان میں ہلال پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا اور ایوان صدر میں ڈاکٹر عارف علوی نے انہیں یہ اعزاز پیش کیا۔ ترکی، آذر بائیجان اور پاکستان کے درمیان سیاست تعاون، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد اسلاموفویبا کے خلاف مشترکہ پالیسی، عالمی معاملات میں یکساں موقف اپنانے، عالمی فورمز پر مشترکہ موقف اپنانے کے ساتھ ساتھ توانائی، تجارت، سیاحت، میڈیا اور تعلیم سمیت دیگر معاملات میں بھرپور تعاون کے فیصلے ہوئے۔ یوں پاکستان اور ترکی کے درمیان مستقبل میں یک جان دوقالب بن کر چلنے کا حتمی فیصلہ ہوا ہے اور اہم بات یہ کہ فیصلہ کثیر الجہتی ہے۔ اب عالمی سیاست میں ترکی اور پاکستان ایک جیسا موقف اپنائیں گے اور ضرورت پڑنے پر دفاعی تعاون تک بھی بات پہنچے گی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اب اس اشتراک و تعاون کی اس ڈوری میں وسط ایشیا کا ملک آذربائیجان بھی بندھ گیا ہے۔ گویا کہ او آئی سی کے تین ممالک نے ہر حال میں ساتھ رہنے اور ایک جیسا موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ مسلمان دنیا میں ’’گیم چینجر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بظاہر یہ تین ملکوں کا فیصلہ ہے حقیقت میں کئی مسلمان ممالک اس دائرے میں اُترنے کے لیے تیار ہیں۔ اس طرح تعاون کا یہ دائرہ وسیع ہونے کا بھرپور پوٹیشل رکھتا ہے۔
ترکی، آذر بائیجان اور پاکستان حال ہی میں نگورنو کارا باغ کے معاملے پر اپنے تعاون کا کامیاب مظاہرہ کر چکے ہیں۔ نگورنو کارا باغ نے مسلمان دنیا کے اندر ایک لکیر سی کھینچی تھی۔ لکیر کے ایک جانب آرمینیا کے حامی اور دوسری جانب آذربائیجان کے ساتھی تھے۔ یہ ایک وقتی تقسیم تھی آنے والے دنوں میں آرمینیا کے ساتھ کھڑے کئی مسلمان ممالک بھی ترکی اور پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔
ترکی 2023 میں سامراجی طاقتوں کی پہنائی گئی سو سالہ غلامی کی زنجیر سے آزاد ہو رہا ہے۔ یہ وہ زنجیر ہے جو ہر فاتح مفتوح کو پہنا دیتا ہے۔ یہ حقیقت میں ترکی کی عظمت رفتہ کے خواب چھیننے کا معاہدہ تھا جس کے تحت ترکی دوبارہ خلافت کا خواب نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سامراجی طاقتوں کا خیال تھا کہ ایک سو سال کے عرصے میں ترکی میں کئی نسلیں گزر جائیں گی اور ہر نسل ماضی سے دور ہوتی جا ئے گی یہاں تک جب سو سال پورے ہوں گے تو ترکی ایک نئی دنیا کا باسی اور نئی راہ کا راہی بن چکا ہوگا۔ کچھ فیصلے قدرت بھی کرتی ہے۔ ایک صدی قبل ایشیا کا مردِ بیمار بن کر آخری ہچکی لینے والی عثمانی ترکی اتنی مدت گزر جانے کے بعد بھی اپنے ہدف کے بارے میں پہلے سے زیادہ یکسو ہے۔ ترکی اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب کے ساتھ پوری طرح جڑا ہوا ہے۔ وقت کا بھائو ترک نسلوں کو اپنی سوچ، منزل اور ماضی سے دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اتاترک کا ترکی ایک سوسالہ زنگ آلود زنجیر غلامی کے ٹوٹنے کا منتظر ہے تاکہ وہ اپنی بین الاقوامی مجبوریوں سے آزاد ہوکر اپنے نئے بین الاقوامی مقام اور منزل کا تعین کرسکے۔
مسلمانوں نے اس عرصے میں تقسیم در تقسیم اور ذلت اور مسکنت کے جو چرکے سہے ہیں ان میں ماضی کی طرف لوٹ جانے میں عافیت ہے۔ ترکی نے پانچ اگست کو کشمیر کی شناخت پر مودی کے حملے کے بعد جس طرح پاکستان کا ساتھ دیا ہے اس کی کوئی قیمت نہیں۔ تنہائی کے لمحوں میں، دبائو اور اعصابی جنگ میں ترکی کی آواز پاکستان کے شامل حال نہ ہوتی تو اس سے مضحکہ خیز صورت حال کا سامنا شاید ہی اس سے پہلے کبھی پاکستان کو کرنا پڑا ہوتا۔ جس کے بعد پاک ترک تعلق پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
دریارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو
یہ طیب اردوان ہی تھے جنہوں نے سود وزیاں کی پروا کیے بغیر بھارت کے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی۔ بھارت کے اخبارات نے الزامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جن میں ایک یہ بھی تھا کہ اردوان عظیم خلافت کا جو خواب دیکھ رہے ہیں بھارتی مسلمان اس کا حصہ ہیں اور یہ کہ ترکی بھارتی مسلمانوں میں اپنا اثر رسوخ خلافت کی بحالی کے لیے بڑھا رہا ہے۔ اسی خوف نے مودی کو مسلم برصغیر کے ثقافتی اور تہذیبی ورثے کو کھرچ ڈالنے کے راستے پر ڈال دیا ہے اور مودی اس خوف میں تنہا نہیں بلکہ کچھ برادر مسلمان ملک بھی ترکی کی سوسالہ زنجیر غلامی ٹوٹنے کی آواز سے خوف کھائے بیٹھے ہیں۔