فوج اور سیاست

1486

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی کردار ہے نہ ہی اسے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہمارا کسی سے کوئی ’’بیک ڈور‘‘ رابطہ نہیں۔ ہمیں اس معاملے سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ایک ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہم پر لگنے والے الزامات کا بہتر طریقے سے دفاع کررہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فضل الرحمن کا پنڈی آنا بنتا نہیں تاہم وہ آئیں گے تو ان کی اچھی دیکھ بھال کریں گے، چائے پانی پلائیں گے۔
جب ہم جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے تو ہمارے شعبے کے ایک استاد تواتر کے ساتھ ہم سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان متحد ہے تو فوج کی وجہ سے، فوج نہیں تو پاکستان کا اتحاد بھی نہیں۔ ہم ان کی یہ بات سن کر ازراہِ احترام خاموش رہتے تھے لیکن جب انہوں نے اس بات کو ایک دن پھر دہرایا تو ہمارا پیمانہ ٔ صبر لبریز ہوگیا۔ ہم نے عرض کیا کہ پاکستان کے اتحاد کی وجہ نہ ہمارا مذہب ہے، نہ ہماری تہذیب ہے، نہ ہماری تاریخ ہے، نہ ہمارا قومی اتحاد ہے، نہ ہمارے قومی مفادات ہیں۔ پاکستان قائم ہے تو صرف فوج کی وجہ سے۔ صرف ایک ادارے کی وجہ سے۔ آپ ملک و قوم کی سلامتی کے حوالے سے کتنی ہولناک بات کہہ رہے ہیں۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ یہ بات کہہ کر فوج کے ادارے کے ساتھ بھی زیادتی کررہے ہیں۔ ملک کی بقا اور سلامتی پوری قوم کی ذمے داری ہے مگر آپ اس ذمے داری کا بوجھ صرف فوج پر ڈال رہے ہیں۔ لیکن یہ صرف ہمارے استاد کا مسئلہ تھوڑی ہے۔
پاکستان کے تمام جرنیل صرف فوج کو ملک کی بقا و سلامتی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہمارے جرنیل کبھی سیاست میں ملوث نہیں ہوسکتے تھے۔ جنرل بابر افتخار نے دعویٰ تو کیا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں مگر وہ ملک میں ایک درجن افراد بھی ایسے نہیں دکھا سکتے جو جنرل بابر کے دعوے کا اعتبار کرتے ہوں۔ جنرل بابر کا یہ خیال بڑا نیک ہے کہ فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹا جانا چاہیے۔ ملک میں کوئی سیاست دان اور کوئی صحافی ایسا نہیں جو فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی جرأت کرے۔ فوج کو سیاست میں کوئی لایا ہے تو جرنیل لائے ہیں۔ جنرل ایوب نے اگرچہ 1958ء میں مارشل لا لگایا مگر وہ 1954ء سے امریکیوں کے ساتھ خفیہ خط و کتابت کررہے تھے۔ جنرل ایوب اس خط و کتابت میں امریکیوں سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان کے سیاست دان نااہل ہیں۔ وہ پاکستان کو تباہ کردیں گے مگر فوج انہیں ہرگز ایسا نہیں کرنے دے گی۔ یہ خط و کتابت جنرل ایوب کے ’’سیاسی عزائم‘‘ کا ’’اشتہار‘‘ ہے۔ اتفاق سے یہ سیاسی عزائم کی سیاست دان نے ان کے اندر پیدا نہیں کیے تھے۔ جنرل ایوب کے سر پر اقتدار پر قبضے کا بھوت سوار تھا۔ جنرل ایوب نے جس وقت امریکیوں سے خط و کتابت کی اس وقت پاکستان میں کوئی کرپٹ نواز شریف یا آصف علی زرداری نہیں تھا۔ چناں چہ پاکستانی سیاست دانوں پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ایوب پاکستانی سیاست دانوں کو ’’بدعنوان‘‘ نہیں ’’نااہل‘‘ قرار دے رہے تھے۔ قصہ کوتاہ۔ جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کردیا۔ انہوں نے یہ کام کسی سیاست دان یا سیاسی جماعت کے کہنے پر نہیں کیا بلکہ ان کی ہوس اقتدار نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ جنرل ایوب بظاہر سیاسی جماعتوں کے خلاف تھے مگر جب انہیں خود ضرورت پڑی تو انہوں نے کنونشن لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کھڑی کردی۔ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تو کہا تھا کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا مگر جب گیارہ سال بعد جنرل ایوب اقتدار سے الگ ہوئے تو بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ مطلب یہ کہ جنرل ایوب کا اقتدار اور ان کی سیاست ملک کو سیاسی استحکام فراہم کرنے میں بُری طرح ناکام رہی۔ یہاں جنرل ایوب کی اقتدار سے علٰیحدگی بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جنرل ایوب کو کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت نے سازش کرکے اقتدار سے محروم نہیں کیا بلکہ جنرل یحییٰ ایک دن سینئر فوجی اہلکاروں کے ساتھ جنرل ایوب کے پاس پہنچے اور فرمایا جناب صدر اب آپ کو جانا ہوگا۔ مطلب یہ کہ فوج ایک بار پھر خود ہی سیاست میں ملوث ہوئی۔ اسے کسی سیاست دان یا سیاسی جماعت نے سیاست میں ملوث نہیں کیا۔
جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو ’’اداراتی سوچ‘‘ کے تحت۔ انہیں کسی سیاست دان یا سیاسی جماعت نے اقتدار پر قبضے کی دعوت نہیں دی۔ بلاشبہ اصغر خان نے اعلیٰ فوجی اہلکاروں کو اقتدار پر قبضے کے لیے اُکسایا مگر اصغر خان بنیادی طور پر ’’فوجی‘‘ تھے سیاست دان نہیں۔ جنرل ضیا الحق بھی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے سخت خلاف تھے مگر انہوں نے بھی جونیجو لیگ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور اس کو ساتھ ملا کر خوب سیاست کی۔ جنرل ضیا الحق بھی سیاسی عدم استحکام کو بنیاد بنا کر اقتدار میں آئے تھے مگر جب جنرل ضیا الحق دنیا سے رخصت ہوئے تو بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جرنیلوں کے اندر ملک کو سیاسی استحکام فراہم کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔
جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو انہیں کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت نے سیاست میں نہیں گھسیٹا تھا۔ وہ ایک ’’اداراتی سوچ‘‘ کے تحت اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق کی طرح جنرل پرویز بھی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے سخت خلاف تھے مگر انہوں نے بھی ق لیگ کے عنوان سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور خوب سیاست کی۔ انہوں نے ایم کیو ایم جیسی فسطائی سیاسی جماعت کو فروغ دیا اور اس کی پشت پناہی کی اور سرعام اس پر فخر کا اظہار کیا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں وکلا کی ملک گیر تحریک شروع ہوئی۔ بظاہر اس تحریک کی پشت پر نواز لیگ اور دوسری جماعتیں تھیں لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ اس تحریک کی پشت پر اصل طاقت جنرل کیانی کی تھی۔ جنرل کیانی اسی طرح جنرل پرویز مشرف سے نجات چاہتے تھے جس طرح جنرل یحییٰ خان نے جنرل ایوب سے نجات حاصل کی۔ ظاہر ہے کہ جنرل کیانی کو کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت نے ’’سیاست‘‘ میں نہیں گھسیٹا تھا۔ بلکہ وہ ازخود سیاست میں ملوث ہوئے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ہمارے جرنیل سیاست میں کیوں ملوث ہوتے ہیں اور وہ غیر سیاسی سیاست کی آڑ میں سیاست، سیاست کیوں کھیلتے ہیں؟
اس سلسلے میں جرنیلوں کے انفرادی اور اجتماعی ’’تصورِ ذات‘‘ کا کردار بڑا اہم ہے۔ جرنیلوں کا انفرادی اور اجتماعی تصورِ ذات یہ ہے کہ ان سے زیادہ محب وطن کوئی نہیں۔ وہی ہیں جو ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ چناں چہ ملک جرنیلوں کا ہے اور اقتدار کا بوجھ اُٹھانا بھی ان کی ’’ذمے داریوں‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ فوجی مادرِ وطن کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں مگر یہ کام تو تاریخ میں ہمیشہ ہی ہوا ہے لیکن کہیں بھی جرنیلوں کو سیاسی قیادت پر غلبہ حاصل نہیں ہوا۔ خالد بن ولید عظیم الشان جرنیل تھے۔ ان کی فتوحات بے شمار تھیں۔ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جس پر زخم نہ ہو مگر سیدنا عمر فاروقؓ نے انہیں ایک لمحے میں برطرف کردیا۔ ان کی برطرفی کا پس منظر یہ تھا کہ مسلمان مسلمانوں کی فتوحات کو خالد بن ولید کی فتوحات نہ سمجھیں بلکہ اسلام کی فتوحات سمجھیں۔ یہ تو خیر بہت ہی بڑی مثال ہے۔ بہت نچلی سطح پر بھی سیاسی قیادت عسکری قیادت پر غالب رہی ہے۔ جنرل میک آرتھ دوسری جنگ عظیم میں امریکا کا ہیرو تھا مگر اس نے جنگ کے دوران ایک سیاسی بیان دے دیا۔ اس سیاسی بیان کی وجہ سے جنرل میک آرتھ کو ایک لمحے میں عہدے سے ہٹادیا گیا۔ امریکا کی سیاسی قیادت نے اس بات کا بھی انتظار نہ کیا کہ جنگ ختم ہوجائے تو جنرل میک آرتھ کو ہٹایا جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں کی ’’کارکردگی‘‘ بھی ایسی نہیں کہ انہیں ملک و قوم کا ’’مائی باپ‘‘ تسلیم کیا جائے۔ پاکستان ایک جرنیل جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں دولخت ہوا۔ جنرل ایوب کو 1962ء کی چین بھارت جنگ کے دوران بھارت سے کشمیر چھین لینے کا موقع فراہم ہوا مگر جنرل ایوب نے امریکا کے دبائو میں آکر اس موقع کو گنوادیا۔ بھارت نے سیاچن پر قبضہ جنرل ضیا الحق کے دور میں کیا۔ ملک میں آئین کی کوئی توقیر نہیں تو اس کی وجہ ہمارے جرنیل ہیں۔ ملک میں جمہوریت ایک کھیل ہے تو سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ جرنیل بھی اس کے ذمے دار ہیں۔ ملک کا دفاع ساٹھ سال سے امریکا مرکز ہے تو اس کی وجہ ہمارے جرنیل ہیں۔ ملک آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے تو جرنیل بھی اس کا سبب ہیں۔
جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت کا ایک بڑا سبب ہماری سیاسی قیادت اور بڑی سیاسی جماعتیں بھی ہیں۔ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم شخصی، خاندانی اور موروثی جماعتیں ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ان جماعتوں کی قیادت بدعنوان اور نااہل بھی ہے۔ چناں چہ اس کے پاس وہ اخلاقی ساکھ ہی نہیں جس کے ذریعے وہ جرنیلوں کی مزاحمت کرسکے۔ چناں چہ جرنیل جب چاہتے ہیں اقتدار پر قبضہ کرلیتے ہیں، جب چاہتے ہیں پردے کے پیچھے بیٹھ کر سیاست سیاست کھیلتے ہیں۔