نہیں شیخ صاحب، ریکارڈ درست رہنے دیں

874

فارن فنڈنگ کیس کی جلد سماعت اور فیصلے کے لیے الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کا احتجاج ہمارا موضوع نہیں، یہ کامیاب ہے یا ناکام، ہمیں اس سے بھی کوئی سروکار نہیں، بہت کم کارکن آئے، مولانا فضل الرحمن نے کیا کہا، مریم نواز کا موقف کیا رہا، بلاول یہاں آنے کے بجائے سندھ کیوں چلے گئے، اس سے بھی ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے، جی ایک بات پر بہت اعتراض اور ریکارڈ کی درستی کے لیے کہنا چاہتے ہیں نواز شریف دور میں جب انتخابی اصلاحات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی پارلیمنٹ کے رکن کے امیدوار کے حلف کی عبارت میں تبدیلی کے خلاف قومی اسمبلی میں سب سے پہلی آواز صاحب زادہ طارق اللہ خان کی تھی، صاحب زادہ طارق اللہ خان آج بھی پارلیمانی تاریخ کے ہیرو ہیں، انہوں نے گواہی دی کہ پارلیمنٹ میں منظور کیے جانے والے بل میں کوتاہی ہے یہ کوتاہی ہمیں سرور کائناتؐ کی قیامت کے روز شفاعت سے محروم کرسکتی ہے، سینیٹ میں یہ آواز مولانا حمد اللہ نے اُٹھائی، راجا ظفر الحق، مشاہد اللہ خان نے ان کی تائید کی، شیخ رشید احمد تو اس سارے سین میں کہیں نظر نہیں آرہے، قومی اسمبلی کی کارروائی اٹھا کر دیکھ لی جائے، سینیٹ کی ساری کارروائی دیکھ لی جائے، ریکارڈ کھنگال لیا جائے، تو پتا چل جائے گا کہ جب یہ ترمیمی بل سینیٹ میں پیش ہوا تو کون دائیں جانب تھا اور کون بائیں جانب کھڑا تھا۔
وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے مولانا فضل الرحمن کی تقریر پر اپنے ردعمل میں پارلیمانی تاریخ اور حقائق بھی مسخ کر دیے ہیں، مولانا نے مدارس کے طلبہ کے حوالے سے جو کچھ بھی کہا یہ ان کا موقف ہے، شیخ صاحب نے اس حوالے سے جو جواب دیا وہ بھی درست ہے مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ختم نبوت سے متعلق حلف میں عبارت کی تبدیلی ختم کرنے والا بل انہوں نے پیش کیا، ان کے اس جملے اور موقف پر اعتراض ہے، ہماری گزارش ہے کہ یہ اعزاز صاحب زادہ طارق اللہ خان سے نہ چھینا جائے، یہ اعزاز اللہ نے انہیں دیا ہے اور انہی کے پاس رہے گا، اگر شیخ صاحب اجازت دیں تو نہایت اختصار کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کیے دیتے ہیں کہ ہوا یوں تھا کہ انتخابی اصلاحات میں کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے امیدوار بننے کی شرط سے متعلق والی کمیٹی کی سفارش جب قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تو اس میں ختم نبوت پر صدق دل سے ایمان والی عبارت میں الفاظ کی تبدیلی کی گئی تھی اور اس سے حلف کی حساسیت کو کم کرنے کی کوشش دکھائی دی، قومی اسمبلی میں سب سے پہلے جماعت اسلامی کے رکن صاحب زادہ طارق اللہ خان اور پارلیمنٹ سے باہر سابق رکن قومی اسمبلی اسد اللہ بھٹو نے اس اہم ترین نکتے کی نشان دہی کی، جس کے بعد نیا ترمیمی بل تیار ہوا، جماعت اسلامی کی پارلیمانی ٹیم کے سیف اللہ گوندل بھی متحرک رہے، اسپیکر ایاز صادق حالات قابو میں نہ رہنے کے باعث صاحب زادہ طارق اللہ خان کو تلاش کرتے رہے اور اس وقت وہ لاہور میں تھے، بہر حال طے ہوا کہ وہ اسلام آباد پہنچیں اور اسمبلی میں بل میں ترمیم پیش کریں تاکہ اس میں خوفناک نتائج کا حامل سقم دور کیا جاسکے، جب یہ معاملہ پہلی بار اسمبلی میں پیش ہوا تو حکومت نے اس کے ساتھ ایک دوسرا بل بھی نتھی کردیا تھا اور شور شرابے میں یہ بل منظور ہوا مگر صاحب زادہ طارق اللہ تو اس کا پیچھا کرتے رہے، یہ وہی لمحات ہیں جب شیخ رشید احمد نے صاحب زادہ طارق للہ خان نے پوچھا کہ مجھے تو علم ہی نہیں، لہٰذا مجھے بتایا جائے کہ ہوا کیا ہے؟ جب انہیں سب کچھ بتایا گیا تو پھر شیخ صاحب میدان میں آئے۔
ہمیں خوشی بھی ہے اور اطمینان بھی ہے اور یقین بھی ہے کہ شیخ صاحب واقعی ختم نبوت کے سچے سپاہی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، وہ نہایت واجب الاحترام عالم دین مولانا غلام اللہ کے شاگرد رہے ہیں، ان سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے اور فیض پایا ہے، شیخ صاحب کبھی بائیں بازو کے کیمپ میں نہیں رہے، کالج یونین کے انتخابات کے زمانے میں بائیں بازو کے پرویز رشید نے ان سے کئی بار شکست کھائی ہے شیخ صاحب کی سیاست اور ان کی سیاسی ترجیحات پر بہت بات ہوسکتی ہے مگر یہ بات واقعی ہر لحاظ سے درست ہے کہ وہ ختم نبوت کے سچے سپاہی ہیں… مگر یہ کہنا کہ بل انہوں نے پیش کیا یہ بات درست نہیں ہے، یہ اعزاز قسمت نے صاحب زادہ طارق اللہ خان کے لیے وقف کردیا ہے اور جب تک پارلیمنٹ رہے گی، تا قیامت یہ اعزاز انہی کے پاس رہے گا… شیخ صاحب آپ میرے لیے محترم ہیں، مجھے آپ سے ذاتی محبت بھی ہے، مگر صاحب زادہ طارق اللہ خان کے لیے اللہ نے جو اعزاز ان کے نصیب میں لکھ دیا ہے وہ اعزاز انہی کے پاس رہنے دیں۔