افغانستان میں کیا ہورہا ہے؟

932

افغانستان میں کیا ہورہا ہے؟ وہاں امریکی فوج کب تک موجود رہے گی؟ موجودہ افغان حکومت کے اہلکار کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا طالبان دوبارہ حکومت میں آجائیں گے؟ کیا افغان حکومت امریکی فوجوں کی روانگی کے لیے تیار ہے؟ کیا افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی معاہدہ طے پاسکے گا؟ کیا پڑوسی ملک بھارت امریکا کی افغانستان سے رخصتی پر خوفزدہ ہے؟ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے افغانستان کا اچانک دورہ کیوں کیا؟ یہ اور ایسے کتنے ہی سوالات جو خطے کے لوگوں کے دلوں میں اُٹھ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سے سوالوں کے جواب چند دن قبل افغانستان کے نائب صدر کے بیان سے مل جاتے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت اس وقت امریکا کا انخلا نہیں چاہتی۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکا نے جو مشن 20 سال پہلے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ اور امریکا نے طالبان کے مطالبات تسلیم کرکے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ یہ اشارہ اس معاہدے کی طرف تھا جو صدر ٹرمپ نے پچھلے سال فروری 2020ء میں طالبان کے ساتھ کیا جس میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کی شرط شامل تھی۔ افغان نائب صدر امریکا سے صاف کہتے ہیں کہ ’’اگر آپ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کا فیصلہ ہے لیکن ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ دھوکے میں نہ آئیں، طالبان کل بھی دہشت گرد تھے اور آج بھی دہشت گرد ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ دوسری ہی سانس میں کہتے ہیں کہ وہ امریکی فوجیوں سے یہ بھیک نہیں مانگ رہے کہ وہ اُن کے ملک میں موجود رہیں اور نہ ہی ہمارے ملک کی تقدیر امریکا کے آخری فوجی ہیلی کاپٹر پر منحصر ہے۔
افغانستان میں امریکا نے 2001ء میں مداخلت کی اور اپنی فوجوں کے ذریعے افغانستان پر بمبوں کی بارش کی۔ اور ایک خاص اصطلاح متعارف کروائی ’’کارپٹ بمباری‘‘۔ ہر طرح کے بموں اور ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بھی امریکا افغانستان میں کامیاب نہ ہوپایا۔ سچ یہ ہے کہ 2006ء ہی میں امریکا کو اپنی شکست کے آثار نظر آنے لگے تھے اور وقتاً فوقتاً اعلیٰ امریکی عہدیدار اس کا اعتراف بھی کرنے لگے تھے۔ دنیا کو معلوم ہوگیا تھا کہ امریکا اور اس کے 44 ملکوں کی افواج کا اتحاد ناٹو افغانستان پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے، لیکن اس درمیان پاکستان پر دبائو ڈالنے اور جنگ کو پاکستان تک کھینچ لانے کے لیے امریکا پاکستان کے قبائلی علاقوں کو ڈرون اور میزائل حملوں کا نشانہ بنانے لگا۔ بے گناہ ہلاکتیں بڑھنے لگیں لیکن امریکا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ البتہ یہ ہوا کہ جب طالبان کو قابو کرنے میں ناکامی ہوئی تو القاعدہ کی طرف رُخ کیا تاکہ عرب ممالک میں تباہی پھیلائی جاسکے اور پھیلائی یہاں بھیانک مذاق کہ اُسے عرب بہار کا نام دیا گیا۔ عراق، شام، یمن، لیبیا کو برباد کیا۔ اس بربادی کے نتیجے میں لاکھوں زندگیاں ختم ہوئیں، لاکھوں معذور ہوئے، بے گھر ہوئے، مہاجر بن گئے۔ پھر یہ مہاجر صحرا اور سمندروں میں جان سے گزر گئے۔ ایسی تباہی کی مثال انسانی تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ اس قدر تباہی کے بعد امریکا 2006ء سے لے کر آج تک اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے اور باعزت رخصتی کے لیے راستے تلاش کرنے کی کوششوں میں لگا رہا۔ شروع میں طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے آمادہ کرتا رہا لیکن طالبان براہِ راست امریکا سے مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔ بالآخر امریکا کو سمجھ میں آگیا کہ طالبان ہی افغانستان میں اصل مزاحمت کی قوت ہے اور اُسے طالبان کے مطالبے کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ طالبان نے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ بھی منوا لیا۔ ٹرمپ نے پہلے ہی ٹویٹ کے ذریعے کہہ دیا تھا کہ ’’افغانستان میں خدمت کرنے والے ہمارے بہادر مرد اور خواتین کی تعداد کرسمس تک بہت کم رہ جانی چاہیے‘‘۔ ٹرمپ کی اس ٹویٹ میں ’’خدمت کرنے والے بہادر مرد اور خواتین‘‘ کے تذکرے پر غور کریں۔ ان خدمت کرنے والوں نے وہاں تباہی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ بچوں اور عورتوں پر گھروں میں گھس گھس کر براہ راست فائرنگ کی۔ شادیوں اور جنازوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ سچ یہ ہے کہ امریکی فوجیوں اور کرائے کے قاتلوں میں فرق کرنا مشکل رہا ہے۔ ایسے ملک میں وہ کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے۔ فی الحال تو کیپٹل ہل ایک فوجی چھائونی کا منظر پیش کررہا ہے۔ وہاں تعینات 25 ہزار فوجیوں کی جانچ بھی کی جارہی ہے کہ کہیں اُن ہی میں شرپسند تو نہیں۔ ٹرمپ خاموش ہیں ساتھ ہی خوفزدہ بھی لیکن اُن کے حامیوں کی جانب سے دیگر ریاستوں، ان کی اسمبلیوں اور کیپٹل ہل پر حملے کا خدشہ ہے۔ سفید فام انتہا پسند گروہوں کی جانب سے ملک بھر میں مسلح مظاہروں کی اپیل کی گئی ہے۔ ان دنوں امریکا بھر میں اسلحے کی خریداری میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اسلحے کی دکانوں میں قطاریں لگی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ 80 لاکھ 40 ہزار افراد نے اسلحہ خریدا ہے۔ لہٰذا دنیا بھر کی نظریں افغانستان سے پہلے امریکا پر لگی ہیں۔ دیکھیں کہ امریکی عوام کے لیے امریکی فوج کیا کرتی ہے؟۔