امریکا کی عالمی رسوائی

535

آخری حصہ

امریکی تجربے سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ محض دستوری دستاویز کسی ملک کے تحفظ، بقا، سلامتی اور استحکام کی ضمانت نہیں ہو سکتی، بلکہ روایات، اقدار اور اداروں کا استحکام ہی آزاد اور غیور قوموں کا افتخار اور آئینی تسلسل کی ضمانت ہوتا ہے، ورنہ دستور تو ہمارے ہاں بھی موجود ہے، لیکن اس کے ہوتے ہوئے ہمارے ہاں دستور سے انحراف کے ادوار آتے رہے اور آج تک اپنی اپنی آئینی حدود میں ادارے مستحکم نہ ہو سکے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوری مَمالک اپنے ملک کے عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ’’Government of the people, for the people, by the people‘‘۔ یعنی عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے‘‘، مگر اسے اس طرح بدل دیا گیا ہے: ’’Government off the people, far the people, buy the people یعنی عوام کو سائیڈ لائن پر رکھو، اپنے آپ سے دور رکھو اور مشکل پیش آئے تو بندے کی قیمت لگا دو‘‘۔ برطانوی عوام نے ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو تین وزرائے اعظم (ڈیوڈ کیمرون اور دو مرتبہ ٹریسا مے) کی قربانی دینے اور دو وسط مدتی انتخابات کی مشقت سے گزرنے کے بعد عوام کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے 31 دسمبر 2020ء کو بریگزٹ یعنی یورپی یونین سے برطانوی خروج کا عمل مکمل ہوا۔
امریکا کے انتخابی نظام کی پیچیدگی بہرحال قائم ہے، یہ طولانی عمل ہے اور ’’ون مین ون ووٹ‘‘ کی بنیاد پر مکمل جْمہوری بھی نہیں ہے، کبھی بھی اسے سبوتاژ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ 50 امریکی ریاستوں کے الیکشن کمیشن الگ الگ ہیں، الیکٹورل کالج کے انتخابات بھی مرکزی سطح پر نہیں ہوتے بلکہ تمام ریاستوں میں الگ الگ ہوتے ہیں، پھر ہر ریاست کا سیکرٹری آف اسٹیٹ وہ نتائج کانگریس کے پاس بھیجتا ہے اور کانگریس ایوان نمائندگان کے اسپیکر اور نائب صدر، جو بالحاظ عہدہ سینیٹ کا صدر ہوتا ہے، کی صدارت میں الیکٹورل کالج کے انتخابات کی توثیق کی جاتی ہے۔ 3 نومبر 2020ء سے 6 جنوری 2021ء تک صدارتی انتخاب کے مراحل کی تکمیل ایک تکلیف دہ عمل تھا، اس نے نہ صرف اہل امریکا کی سانسیں روکے رکھیں بلکہ دیگر عالمی قوتوں کو بھی متاثر کیے رکھا، کیونکہ ٹرمپ کی غیر یقینی شخصیت کے بارے میں ہر ایک متفکر تھا کہ کسی بھی وقت وہ کوئی خطرناک اقدام کر سکتے ہیں۔ آخرکار 6 جنوری کو کیپٹل ہل یعنی کانگریس کے دفاتر پر حملہ ہو ہی گیا۔ امریکا میں دستوری ترمیم ہمارے ملک کی طرح آسان کام نہیں ہے۔ 1789ء سے اب تک امریکی دستور میں کل 33 ترامیم ہوئی ہیں جبکہ 1973ء سے اب تک ہمارے دستور میں 26 ترامیم ہو چکی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جدید جْمہوری ممالک میں دستور میں ترمیم کتنا مشکل کام ہے۔ جمعرات کی صبح تک صورت حال یہ ہے کہ 197 کے مقابلے میں 232 ووٹوں کی اکثریت سے ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کی مواخذے کی تحریک منظورکر لی ہے اور اس کی مزید کارروائی سینیٹ میں ہو گی۔
ان کی مدتِ صدارت کے اختتام سے ایک ہفتہ پہلے پیش کی جانے والی اس تحریک کا مقصد یہ ہے کہ ٹرمپ کو 2024ء کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے، ورنہ وہ 4 سال تک سفید فام لوگوں میں منظم طریقے سے نفرت اور عصبیت کو ابھاریں گے اور کوئی بعید نہیں کہ وہ اگلا انتخاب پھر جیت کر امریکا کے لیے نئے مسائل پیدا کریں، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ مخالف ریپبلکن سینیٹر مچ مکولن نے کہا: ’’مواخذے سے ری پبلکن پارٹی کو ٹرمپ سے نجات ملے گی‘‘۔ سینیٹر ٹیسٹر نے کہا: ’’ارکانِ کانگریس کو بھی ذمے دار قرار دینا چاہیے‘‘۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر ری پبلکن نے انہیں ردّ کر دیا تو وہ نئی پارٹی بھی بنا سکتے ہیں اور قانونی ماہرین سے اس پر بھی مشورہ کر رہے ہیں کہ صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو معاف کر دیں۔ مواخذے کی تحریک منظور ہونے کے بعد ٹرمپ نے وڈیو پیغام میں کہا: ’’امریکی جذبات کو قابو میں رکھیں، تشدد سے گریز کریں اور متحد ہو کر آگے بڑھیں‘‘۔ اب تو پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے۔
مشہور جریدے ’’فارن افیئرز‘‘میں لکھا ہے: ’’امریکا کی داخلی صورت حال بھی سرد جنگ کے دور سے یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے، امریکی سوسائٹی میں ووٹرز اس وقت بھی منقسم تھے، لیکن جو تقسیم، تعطل اور تعصب کی صورت حال اب امریکی سیاست میں ہے، ایسی سرد جنگ کے وقت بھی نہ تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نہ صرف اندرونی طور پر بلکہ بیرونی دنیا میں بھی اپنے مقاصد اور منزل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ امریکا کا موقف اور اس کا قد کاٹھ اتنی تنزلی کا شکارکبھی نہیں ہوا تھا، جتنا کہ ٹرمپ دور میں ہوا ہے، حالت یہ ہو گئی ہے کہ واشنگٹن کے قریب ترین اتحادی بھی اسے قابل اعتماد شراکت دارسمجھنے کو تیار نہیں ہیں‘‘۔
ٹرمپ کے دور میں امریکا نے یورپی ممالک کے اعتماد کو بھی مجروح کیا۔ ٹرمپ نے عالمی ادارۂ صحت سے بھی علٰیحدگی اختیار کی۔ پیرس میں 2015ء میں جو عالمی ماحولیاتی معاہدہ ہوا تھا اور جسے 2020ء میں نافذ العمل ہونا تھا، ٹرمپ نے اس سے بھی یک طرفہ طور پر علٰیحدگی اختیار کر لی۔ اسی طرح عالمی قوتوں نے 2015ء میں ایران کے ساتھ جوہری عمل کو محدود کرنے کا جو جامع معاہدہ کیا تھا، اس سے بھی ٹرمپ نے یک طرفہ طور پر علٰیحدگی اختیارکر کے ایران پر پابندیاں عائد کر دیں، جبکہ معاہدے کے دیگر شرکا مسلسل اصرارکرتے رہے کہ ہم اس پر قائم ہیں۔ اس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ باقی دنیا تو چھوڑیے، امریکا اپنے قریبی اتحادیوں کے ساتھ بھی مل کر چلنے کے لیے تیار نہیں ہے، اگرچہ امریکا تاحال دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور حربی طاقت ہے، مگر عالمی قیادت کے لیے جس اعتبار اور اخلاقی برتری کی ضرورت ہوتی ہے، ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا اس سے محروم ہو چکا ہے۔ پس جو بائیڈن کو ایک طرف اپنے ملک و قوم کو داخلی انتشار سے نکالنا ہے تو دوسری طرف عالمی اعتماد کی بحالی کا اہم چیلنج بھی انہیں درپیش ہوگا۔ ٹرمپ روس کے ساتھ تخفیفِ اسلحہ کے معاہدے کو بھی یک طرفہ طور پر ختم کر چکے ہیں، چین کے ساتھ تنائو بھی انتہا پر ہے۔ ماضی کی سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین ایک طرح سے بند چار دیواری میں تھا، لیکن چین اور امریکا دونوں کا تجارتی میدان میں ایک دوسرے پر انحصار ہے اور یک طرفہ طور پر نکلنا کسی بھی فریق کے لیے آسان نہیں ہے، اس لیے چین کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کی بحالی کے لیے بھی بائیڈن کو از سر نو کام کرنا ہوگا۔