ڈی کالونائیزیشن اور دو قومی نظریہ

756

عثمانی ترکوں کے ہاتھوں 1453ء میں فتح قسطنطنیہ ایسا واقعہ تھا جس نے یورپ پر سکتہ طاری کر دیا۔ ترکوں کو بلیک سی، باسفورس، بحیرہ مرمرہ اور ایجین سی میں کلیتاً برتری حاصل ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن کو بحیرہ روم میں بھی یک گونہ اثر رسوخ حاصل ہوگیا یوں ایشیاء کے ساتھ تجارت کا متبادل راستہ یورپ کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا۔ اُس وقت کی دنیا کے امیر ترین خطے برصغیر تک پہنچنے کے لیے یورپین طاقتیں کوششوں میں لگ گئیں۔ اسی کوشش میں کولمبس 1492ء میں امریکا کا راستہ دریافت کر چکا تھا وہ 1506ء میں اپنی موت تک اس کو ہندوستان سمجھتا رہا۔ لیکن خونخوار پرتگالی جہازراں واسکوڈی گاما اس لحاظ سے خوش قسمت نکلا کہ وہ 1498ء میں Cape of Good Hope کا چکر کاٹ کر مُڈغاسکر پہنچا اور پھر وہاں سے ایک ہندوستانی ملاح کی مدد سے ہندوستان کی بندرگاہ کالی کٹ پہنچ گیا جہاں اس نے مقامی لوگوں کا خوب قتل ِ عام کیا۔ اپنے دوسر ے سفر کے دوران افریقا سے ہندوستان کے راستے میں آنے والے تمام بحری جہازوں کو اس نے ڈبو دیا جن میں سے ایک جہاز 400 حاجیوں کو لے کر حجاز جارہا تھا۔ ڈوبتے جہاز کے عرشے پر مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو سینے سے لگائے رو رہی تھیں۔ پرتگالیوں نے ہندوستان میں اپنی تجارتی کوٹھیاں بنانی شروع کر دیں اور انگریز سے بہت پہلے ہندوستان کے ساحلی شہروں میں اپنے قدم جمانے لگے۔
تجارت اور منافع کی اس دوڑ میں انگریز بھلا کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ اُس نے 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی اور ہندوستان کی تجارت اور دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے پر تولنے لگا۔ لیکن ڈچ اور پرتگیزیوں کی بالادستی ایک چیلنج سے کم نہ تھی۔ اس سے نمٹنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک زبردست چال چلی جس نے آنے والے دور میں ہندوستان میں انگریز کی سیاسی، معاشی اور عسکری بالادستی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 1616ء میں کمپنی کی درخواست پر کنگ جیمز نے مشہور برطانوی سفارت کار سرتھامس رو کو ہندوستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اُس کے آنے کا مقصد مغل بادشاہ جہانگیر سے تجارت کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا تھا۔ سر تھامس رو قیمتی تحفے تحائف کے ساتھ آگرہ روانہ ہوا۔ ان تحائف کو بحفاظت آگرہ پہنچانے کے لیے انگریز نے دو درجن کے قریب مقامی افراد کو بھرتی کیا جس نے آگے چل کرکمپنی کی فوج کی صورت اختیار کر لی۔ بعد میں یہ فوج رائل انڈین آرمی اور تقسیم کے بعد انڈین آرمی اور پاکستان آرمی کی بنیاد بنی۔ سرتھامس روتین سال تک بادشاہ کے دربار میں رہا جہاں اُس کو کافی اثر رسوخ حاصل ہوگیا۔ تاریخ دانوں کے مطابق وہ جہانگیر کی محفل ناؤ نوش کا ساتھی بن گیا یہ وہی تھا جس نے جہانگیر کو ریڈ وائن پینے پر لگایا تھا۔ جہانگیر کے بعد شاہ جہاں اور پھر اورنگزیب حکمران بنے۔ اورنگزیب کے بعد مغل حکمران کمزور اور حکمرانی کی سوجھ بوجھ سے عاری تھے۔ اُن کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر علاقائی گورنر خودمختار بن بیٹھے اور مغل سلطنت سکڑتے سکڑتے دلی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ بنگال میں مُرشد قلی خان، کرناٹک میں انورالدین، مرہٹہ سلطنت میں نانا صاحب، میسور میں حیدر علی، حیدر آباد میں نظام، پنجاب میں سکھ اور سندھ میں کلہوڑے خود مختار ہوگئے۔
ملک میں پھیلی اس انارکی کا سات سمندر پار سے آئی یورپین طاقتیں بغور جائزہ لے رہی تھیں۔ جب تک مغل سلطنت طاقتور تھی تب تک اُن کی دال نہیں گلی تھی۔ انگلینڈ نے ہندوستان کے ساتھ تجارت کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی تھی۔ نیدر لینڈ نے ڈچ ایسٹ انڈیا جبکہ فرانس نے فرینچ ایسٹ انڈیا کمپنی بنائی تھی جو اپنے اول الذکر کے برعکس ایک سرکاری کمپنی تھی۔ مغل سلطنت کو کمزور دیکھ کر ان تینوں کمپنیوں نے ہندوستان میں ایک دوسرے کو پچھاڑنا شروع کردیا۔ یہ لڑائی بالآخر انگلینڈ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فتح پر منتج ہوئی۔ اُس نے کرناٹکا میں فرانسیسیوں کو نکال باہر کرتے ہوئے حکمران انور الدین کو بھی شکست دی۔ ہندوستان میں انگلینڈ کی کامیابی کا سہرہ ایک ملٹری کلرک رابرٹ کلائیو کو جاتا ہے جوترقی کرتے کرتے کرنل کے عہدے تک پہنچ گیا تھا۔ کرناٹک کے بعد بنگال کی باری آئی جہاں مارچ 1757ء میں پلاسی کی لڑائی میں فیصلہ کُن فتح کے بعد انگریز نے بنگال میں برتری حاصل کرلی۔ پھر 22اکتوبر 1764ء میں بکسر کے میدان میں بنگال، اودھ اور دلی کے بادشاہ کی مشترکہ فوجوں کو شکست دے کر انگریز نے ہندوستان پر مکمل قبضے کی راہ ہموار کر لی۔ کمپنی نے دل کھول کر ہندوستان کے وسائل کی
لوٹ مار شروع کر دی۔ اس لوٹ مار کی خبریں تواتر کے ساتھ انگلینڈ پہنچیں تو کلائیو کی گوشمالی شروع ہوئی۔ 1774ء میں اُس وقت کی نیب کی تفتیش سے تنگ آکر کلائیو نے خودکشی کر لی کیونکہ وہ بھی انگلینڈ کے لیے اپنی ’’خدمات‘‘ کے عوض کرپشن کو اپنا حق سمجھتا تھا اور خود کو پارلیمنٹ کی تفتیشی کمیٹی یعنی نیب سے بالاتر سمجھتا تھا۔
ہندوستان کے برعکس برطانیہ انڈونیشیا میں اتنا خوش قسمت نہیں رہا تھا۔ ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پے در پے شکستیں دے کر انڈونیشیا سے اُس کا بوریا بستر گول کردیا۔ لیکن ملائشیا کی جوہر ریاست کو حیلے بہانوں سے انگریز نے قابوکیا اور یوں ملائشیا اور سنگاپور پر قابض ہوگیا۔ فرینچ ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈو چائنا یعنی آج کے ویت نام لاؤس اور کمبوڈیا پر قبضہ کرلیا۔ اسپین اس سے پہلے ہی ملایا کے باقی جزیروں پر قبضہ کرکے اپنے بادشاہ فلپ کے نام پر ایک نیا ملک فلپائن بسا چکا تھا۔
استعماری طاقتوں نے اس دوران افریقا میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کردیے تھے۔ افریقا میں فرانس زیادہ کامیاب رہا۔ جہاں پر اُس کا قبضہ تقریباً آدھے افریقا پر تھا۔ جبکہ دوسرے نمبر پر برطانیہ تھا جس نے جنوب کی طرف سے افریقا پر قبضہ جمانا شروع کیا۔ یوں یہ کالونیل پاورز افریقا میں بہت اندر تک گھس گئیں۔ تھوڑا سا حصہ پرتگال کے حصے میں بھی آیا جو افریقا میں آیا توسب سے پہلے تھا لیکن اپنے دگرگوں اندرونی حالات کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ اسی طرح بلجیم نے کانگو پر قبضہ کرلیا۔ بلجیم کے بادشاہ لیو پولڈ دوم نے بلجیم کو اپنی ذاتی جاگیر قرار دے دیا۔ افریقا میں اُس المیے نے جنم لیا جس کو دنیا آج The Scramble for Africa کے نام سے جانتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب پورے براعظم افریقا میں دوہی آزاد ملک تھے۔ ایتھوپیا اور لائبیریا۔ 1885ء میں ان یورپی طاقتوں نے پیرس میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں افریقا کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ افریقا کے مستقبل سے متعلق اس فیصلہ کن کانفرنس میں ایک بھی افریقی شامل نہیں تھا۔
افریقا کے برعکس جنوبی امریکا میں صورتِ حال زیادہ دلچسپ تھی جہاں اسپین زیادہ کامیاب رہا۔ 1498ء میں کالونائزیشن کے معاملے پر پرتگال اور اسپین میں ٹھن گئی۔ اس مسئلے کو صرف ایک ہی شخص حل کراسکتا تھا اور وہ تھا ’’پوپ‘‘۔ پوپ نے اس مسئلے پر ایک فرمان جاری کیا اور کمال مہربانی سے بحرِ اوقیانوس کے درمیان ایک فرضی لکیر کھینچتے ہوئے مشرق کی تمام زمینیں پرتگال کو جبکہ مغرب کی تمام زمینیں اسپین کو عطا کر دیں۔ دوسروں کی زمینوں کو عطا کرنے کا ایسا پُر فیاض مظاہرہ تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پرتگال نے بہرحال پھر بھی ڈنڈی ماری اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان کی لکیر کو مزید مغرب میں لے گیا اور پھر آج کے برازیل پر قابض ہوگیا۔ کیوبا، گوام، پورٹوریکو، میکسیکو، چلی، بولیویا اور پیرو وغیرہ پر اسپین اپنا قبضہ جمانے میں کامیاب رہا۔ جبکہ شمالی امریکا میں آخری فتح برطانیہ کے ہاتھ میں آئی۔ یہ تمام قبضے صرف چھے ممالک برطانیہ، اسپین، پرتگال، بلجیم، فرانس اور نیدرلینڈ کر رہے تھے۔ جبکہ کچھ چھوٹے یورپی ممالک بھی اس بندر بانٹ میں اپنا حصہ وصول کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔
اس وقت ایک اور یوریشین طاقت اپنے عروج پر تھی اور وہ تھا وولگن بیر یعنی روس۔ روس کا کالونائزیشن کا طریقہ کار دیگر یورپی طاقتوں سے مختلف تھا اور وہ طریقہ تھا الحاق۔ روس نے 1533ء میں آئیوان اعظم کے دور سے اپنی سرحدوں میں توسیع کرنی شروع کردی اور اگلی تین صدیوں میں دنیا کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن گیا۔ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب 25دسمبر 1991ء کو سویت روس ٹوٹا تو اُس میں 15 ممالک نکلے لیکن اس کے باوجود بھی روس کا رقبہ پوری دنیا کا ایک تہائی رہا۔
(جاری ہے)