نصیب کا لکھا

542

کوئی نہیں جانتا سال نو کیسا گزرے گا مگر قوم یہ ضرور جانتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومتی مدت کے بقایا ڈھائی سال بھی انگڑئیاں لیتے گزار دیں گے۔ نوجوان طبقہ ہی نہیں جہاں دیدہ افراد نے بھی عمران خان کے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی کارکردگی سے ناخوش تھے۔ وہ کسی نیک نام شخص کو آزمانہ چاہتے تھے عوام عمران خان کی مقبولت سے متاثر ضرور تھے ان کی ملکی اور سماجی خدمات کے معترف بھی تھے۔ مگر ووٹ دینے کی یہ وجہ نہ تھی اصل حقیقی وجہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی کارکردگی تھی اور یہی وجہ قومی المیہ بن گئی۔ عمران خان وزیر اعظم بن کر بھی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ وزیر اعظم نہ بن سکے اور اس سے بڑے بد نصیبی یہ ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کی کوشش ہی نہ کی یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم بننا ان کے نصیب میں لکھا تھا اور نصیب کا لکھا ضرور پورا ہوتا ہے مگر قوم کے نصیب پھوٹ گئے عوام کی مایوسی کا یہ عالم ہے کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر اپنے نصیب کو رو رہے ہیں اور عمران خان کے ترجمان ٹی وی چینل پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں، بقول ان کے پی ڈی ایم والوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی مدت پوری کرلی تو آئندہ الیکشن اپوزیشن کے لیے ناکامی اور مایوسی ہی کا پیغام لائیں گے۔ کیونکہ عمران خان کی پالیسوں کے باعث اشیاء خور ونوش کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے چینی 115روپے فی کلو بک رہی ہے اب 80سے 85روپے فی کلو فروخت ہورہی ہے۔ یہ سن کر سننے والے اپنا سر پیٹنے لگتے ہیں اور یہ سوچ کر حیران ہورہے ہیں کہ 55روپے فروخت ہونے والی چینی کی قیمتی 115روپے کرنے کے بعد 80سے 85روپے فی کلو کرنے پر مہنگائی کم کرنے کا کریڈٹ لینے والوں میں شرم و حیا ہی نہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں بناسپتی گھی 60روپے فی کلو فروخت ہوتا تھا۔ اچانک 62روپے فی کلو کردیا تھا۔ مگر دوسرے دن پھر گھی کی قیمت60روپے کردی گئی کیونکہ جنرل مشرف نے اس گرانی کا سختی سے نوٹس لیا تھا۔ اور حکم جاری کیا تھا کہ گھی ساٹھ روپے فی کلو ہی فروخت کیا جائے زیادہ قیمت فروخت کرنے والوں کے خلاف ایکشن لینے کا نوٹس بھی جاری کردیا گیا۔ یوں گھی کی قیمت میں اضافہ کرنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا مگر کپتان صاحب کمیٹی کمیٹی کھیلنے کا شغف فرمانے لگے۔ اس طرح جس چیز کی قیمت بڑھی بڑھتی چلی گئی اور عوام مایوس ہوتے چلے گئے اور یہ باور کرلیا تھا کہ کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنا اور حکومت چلانا دو متضاد کام ہیں۔ اور یہی فرق ٹیم میں رد وبدل کرنے اور کابینہ کے وزرا کو اِدھر اُدھر کرنے میں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ دھرنوں اور جلسے جلسوں سے حکومت نہیں گرائی جاسکتی اور اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان 126دن کے دھرنے کے بعد بھی حکومت نہ گرا سکتے اور ان کے استعفے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ تحریک انصاف پی ڈی ایم کی ناکامی پر اتنی خوش کیوں ہے۔ اور اس نے یہ کیسے تسلیم کرلیا کہ گیارہ جماعتی اتحاد با لآخر نو دو گیارہ ہوجائے گا۔
پی ڈی ایم کو اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے والے انہیں حکومت چلانے کا قرینہ اور سلیقہ سکھانا چاہتے تھے۔ سو انہیں خیبر پختون خوا کی حکومت دے دی گئی مگر خان صاحب نے وزیر اعلیٰ کے منصب پر بیٹھنا اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ مجبوراً موصوف کو وزیر اعظم بنانے کے بارے میں غور وخوص کیا مگر خان صاحب امیر المومنین بننا چاہتے ہیں ان کی خواہش کو بھی مان لیا تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ پاکستان کو مدینے کی ریاست بنا دیں مگر عمران خان خود کو مکمل مسلمان نہ بنا سکے ریاست پاکستان کو ریاست مدینہ کیسے بنا سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان ہمہ وقت غصہ میں رہتے ہیں ان کے اعلانات اسی غصے اور اسی جھنجھلاہٹ کے مظہر ہوتے ہیں۔ پی ڈی ایم یہ بھی جانتی ہے کہ کھونٹا مضبوط ہو تو اسے اکھاڑنا ممکن نہیں ہوتا۔ جلسے، جلسوں کا بنیادی مقصد اپنی بقا کی جنگ لڑنا ہے۔ کیونکہ عمران خان کی حکومت میں حزب اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں وہ اپنی بات عوام تک نہیں پہنچا سکتے سو یہ کام جلسے جلسوں سے کیا جارہا ہے۔
نئے سال کے حالات کے بارے میں نجومی بھی پیش گوئیاں کررہے ہیں مگر ان کی پیش گوئیوں سے یوں لگتا ہے کہ جیسے علم نجوم کا میدان بھی نورا کشتی کا اکھا ڑا بن گیا ہے۔ ایک نجومی جو پیش گوئی کرتا ہے دوسرا اس کی مخالفت میں پیش گوئی کردیتا ہے ایک نجومی کہتا ہے کہ 2021 میں عوام کو ذہنی سکون میسر آئیگا۔ مہنگائی کا شکنجا ڈھیلا پڑ جائے گا۔ دوسرا کہتا ہے کہ مہنگائی میں کمی کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے مہنگائی مزید بڑھے گی اور جہاں تک عوام کے سکون کا تعلق ہے تو گرانی سر گرانی کا سبب نہیں بن سکتی کہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے عادی ہوجائیں گے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ اس سال کے بجٹ میں تنخواہ میں کمی کردی جائے گی کیونکہ اگر عمران خان کی ٹائیگر فورس بغیر تنخواہ کے کام کرسکتی ہے تو باقی لوگ کم تنخواہ پرکام کیوں نہیں سکتے۔