کورونا کی تخلیق کا معما

943

چین کی حکومت نے عالمی ادارہ صحت کو کورونا کی ابتدا کے حوالے سے تحقیق کی اجازت دے دی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ایک ٹیم جلد ہی چین کے شہر ووہان پہنچے گی جہاں پہلے ہی چینی سائنس دان اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ کورونا کا جنم کیسے ہوا؟ اور اس کے محرکات کیا تھے؟۔ دنیا میں کورونا متاثرین کی تعداد اس وقت بھی نو کروڑ آٹھ لاکھ اور دو ہزار ہو گئی ہے۔ اس وبا کے باعث عالمی سطح پر انیس لاکھ پینتالیس ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ عالمی ماہرین کی ٹیم دو دن قرنطینہ میں رہنے کے بعد چینی سائنس دانوں کا حصہ بن جائے گی۔ کورونا وائرس کی آغاز نومبر 2019 میں چین کے جدید شہر ووہان سے ہوا اور آن واحد میں یہ مشینی اور صنعتی شہر خوف کے سایوں کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ ووہان ہی میں اس وبا کا نام کورونا وائرس پڑ گیا تھا۔ چینی سائنس دانوں نے اسی وقت اس وبا کے آغاز و ارتقاء پر تحقیق شروع کی تھی۔ اس سے بچائو اور وجوہات پر سوچ وبچار شروع کی گئی تھی۔
کورونا کے آغاز کے ساتھ ہی سازشی تھیوریاں بھی گردش کرنے لگی تھیں۔ مغربی ملکوں نے اس وبا کو چین کو عالمی سطح پر بدنام کرنے اور چین کے عالمی اقتصادی اُبھار کے اسپیڈ بریکر کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی اپنائی تھی۔ امریکی صدر ٹرمپ تو اس معاملے پر ذاتیات تک اُتر آئے تھے اور انہوں نے اس وائرس کے لیے ’’چینی وائرس‘‘ کی اصطلاح گھڑ لی تھی۔ کئی تقریروں اور انٹرویوز میں انہوں نے چینی وائرس کی اصطلاح استعمال کی مگر ٹرمپ کی طرف اس وائرس کو چین کے ساتھ اور چین کو اس وائرس کے ساتھ بریکٹ کرنے کی یہ حکمت عملی عالمی سطح پر اور میڈیا میں زیادہ قبولیت حاصل نہ کرسکی اور دنیا اس کے لیے کورونا اور کوڈ ہی کی اصطلاح استعمال کرتی رہی۔ ایک مرحلے پر تو ٹرمپ نے باضابطہ طور پر چین کو دھمکانا بھی شروع کیا تھا کہ اگر یہ وائرس چین کی کوئی سازش ہوئی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی سوچ کے زیر اثر مغربی میڈیا میں اس بات پر بھی بحث ہوتی رہی کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے۔ ایک اور تھیوری یہ بھی تھی کہ چینی عوام چونکہ ہر قسم کے جانور کھاتے ہیں اس لیے وائرس کسی جانور کے کھانے سے پیدا ہوا ہے۔ پھر تیقن سے کہا جانے لگا کہ وائرس چمگادڑ کھانے سے ظہور پزیر ہوا ہے۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر چین کی ان گوشت مارکیٹوں کے مناظر سوشل میڈیا پر عام ہونے لگے جن میں جانوروں کو اہتمام سے سجایا ہوتا تھا۔ یہ چین کی ثقافت کو دنیا کے لیے قابل نفرت بنانے اور دنیا کو اس سے خوف زدہ کرنے کی منظم مہم تھی۔ اس مہم پر چین نے بہت نرم انداز میں کہا تھا کہ یہ سب کچھ صدیوں سے چین کی ثقافت کا حصہ ہے وائرس کی ابتدا کی یہ وجہ نہیں۔ اس کے باجود چین کو عالمی سطح پر کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
یہ کیسا لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس تھا جس کی زد میں سب سے پہلے چین اور اس کا شہر ووہان اور ہزاروں شہری آئے۔ امریکا نے چین کو جس تحکمانہ انداز میں اپنی تحقیقاتی ٹیموں کو تحقیق کے لیے داخلے کی اجازت مانگی وہ رویہ چین کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ امریکا کے ساتھ اب چین کے تعلقات میں وہ گہرائی اور گرم جوشی نہیں رہی کہ اس طرح تحقیقاتی کمیٹیوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیتا۔ اب جبکہ کورونا اپنی پیدائش کے بعد تیسرے سال میں داخل ہوگیا ہے اور اس کی کئی نئی شکلیں بھی دنیا میں دندنانے لگی ہیں چین نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ماہرین کو تحقیقات کی اجازت کے لیے اپنے ہاںآنے کی اجازت دے دی۔ یہ تحقیقی عمل ہے تفتیشی نہیں اور چین کے سائنس دان پہلے ہی اس تحقیق میں مصروف ہیں۔
امریکا جس اسٹائل میں کام کرنا چاہتا تھا وہ تحقیق سے زیاد ہ تفتیش کا انداز تھا جس میں چین کو ملزم جان کر اس لیبارٹری کی تلاشی لینا مقصود تھا جس میں مبینہ طور پر وائرس تیار ہوا تھا۔ ہر ملک عراق کی طرح نہیں ہوتا کہ جو کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر اونٹ کو خیمے میں سر دینے کی اجازت دے۔ چین نے امریکا کو اس سارے معاملے سے پہلے ہی دور رکھا۔ الزامات اور عالمی مہم کا پورے صبر وتحمل سے سامنا کیا اور ویکسین تیار کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کو خالص سائنسی انداز کی تحقیق یا پہلے سے جاری تحقیق میں معاونت کی اجازت دی۔ امریکا نے کورونا کو چین کی کلائی مروڑنے کے لیے استعمال کرنے کی خاطر سو جتن کیے مگر چین نے استقامت کے ساتھ امریکا کو راہ دینے سے انکار کیا۔ تفتیشی انداز جب تک علمی اور تحقیقی شکل میں نہ بدلا چین نے کسی کو اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اب تحقیق کا یہ سفر دنیا کے لیے بہت دلچسپ اور تجسس آمیز ہے کیونکہ کورونا کے نام پر دنیا پر ایک ایسی شب دہشت طاری رہی ہے جس میں کی تاریکیوں نے ایک نسل اور اقدار کو چاٹ کھایا۔ رسوم ورواج اور مذہبی فرائض تک کو متاثر کر لیا تھا۔ اب بھی دنیا کورونا سے پہلے اور کورونا کے بعد کے دوخانوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ دنیا کو اس تحقیق کے نتائج کا بے چینی سے انتظار ہے گا کہ آخر کرہ ٔ ارض اور اس پر بسنے والوں پر جو قیامت برپا رہے اس کا محرک کیا ہے اور یہ کہ انسانوں کے سر پر ٹوٹ پڑنے والی مصیبت کہاں سے چلی اور کیوں چلی؟ دیکھنا یہ ہے کہ گتھی سلجھتی ہے یا راز ہمیشہ کے لیے ووہان کی فضائوں میں دفن ہو کر رہتی ہے؟