تیرے گورے گورے گال۔۔ اسٹیبلشمنٹ

716

انارکلی کے دیوار میں چنوانے کی ایک وجہ ابن انشا نے یہ بیان کی ہے کہ امتیاز علی تاج اپنا شاہکار افسانہ لکھ سکیں۔ لگتا ہے پی ڈی ایم کی تحریک بھی اس لیے برپا کی گئی ہے کہ فوج اس کی خدمت میں چائے پانی پیش کرسکے۔ چائے کے ساتھ چاہ کا ذکر نہیں۔ فوج نے ساری چاہ عمران خان کی پیالی میں گھول رکھی ہے۔ جس طرح گل کی قدر افزائی میں خار کو بڑا دخل ہے اسی طرح عمران حکومت کی بقا میں فوج کی دست اندازی کو۔
کسی کے ہونٹوں پہ، کس طرح گوارا کرلوں
تجھے چینک سے انڈیلا گیا ہے میرے لیے
پی ڈی ایم فوج کے خلاف شکایت کنندگان کے ٹولے کا نہیں اکھاڑے کا منظر پیش کررہی ہے۔ اکھاڑے میں اُترے پہلوان دھر پٹک تو کرتے ہیں لیکن چائے؟ مولانا اس پیش کش کو ٹرخانا باور کرتے ہیں۔ وہ چائے کے ساتھ پاپا جونز کا پیزا بھی چاہتے ہیں۔ شکر ہے مولوی حلوے سے پیزا تک تو آئے۔ فوج کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پیزا تو گھر کی پروڈکٹ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی فوج کے ساتھ جو نوکا چوکی چل رہی ہے اس طرح کی چھیڑ چھاڑ طبیعت میں جولانی پیدا کرتی ہے۔ مرزا سودا نے ایک شاعر سے جو ان کا شاگرد ہونے آیا تھا کہ ہجو لکھا کیجیے۔ اس نے کہا ’’کس کی ہجو لکھوں‘‘ مرزا نے کہا ’’آپ میری ہجو لکھیے میں آپ کی ہجو لکھوں گا‘‘۔ جعفر نے اپنی بیوی کی جو ہجو لکھی تھی اگر مولانا کو خبر ہوجائے تو بعید نہیں کہ فوج کے خلاف پڑھ دیں۔
کھائے بہت اور کچھ نہ کرے
سارے گھر سے لڑتی پھرے
کام کرے تو ایسا کرے
چولھے کی ہانڈی کھڈی دھرے
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’ہمارے کسی کے ساتھ کوئی بیک ڈور رابطے نہیں ہیں۔ ہم پر لگائے گئے الزامات میں کوئی وزن نہیں۔ پاک فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے‘‘۔ قارئین کرام جھوٹ بولنا گناہ ہے لیکن وہ جس کے بولنے اور سننے والے دونوں کو یقین ہو کہ جھوٹ ہے بقول مشتاق احمد یوسفی ’’گناہ نہیں‘‘۔ فوج کی طرف سے جس طرح بار بار کہا جارہا ہے کہ ہمیں سیاست میں نہ گھسیٹیں ایک اسکول بس کے پیچھے لکھی تحریر یاد آجاتی ہے ’’بار بار ہارن دے کر مت چھیڑیں میں بچوں والی ہوں‘‘۔ بچوں والی عورت ذیلی ادارہ نہیں گھر کی مالک ہوتی ہے۔ جس طرح علم سیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود پڑھانا شروع کردے۔ اسی طرح سیاست دانوں کی طرف سے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کے الزام کا علاج یہی ہے کہ فوج سیاست میں گھس جائے۔ جس قدر فوج سیاست میں پہلے ہی گھسی ہوئی ہے اگر اس کے بعد کوئی جگہ باقی بچی ہو تو!!
ہر کامیاب آدمی کے پیچھے عورت ہوتی ہے اور برسر اقتدار پاکستانی کے پیچھے فوج۔ جس طرح پی ڈی ایم کے ہزاروں سپورٹرز کو چائے پانی آفر کی گئی ہے ایک صاحب بولے ’’فوج کی چائے کی دکان ہے کیا‘‘ اس پر ایک دوسرے صاحب بولے ’’فوج کی دلیہ سے لے کر اسٹیٹ اور پیزے تک ہر چیز کی دکان ہے اس کی وجہ منافع اندوزی نہیں قائداعظم کی محبت ہے۔ ہمارے جرنیل ہر اس کرنسی نوٹ کو اپنی تحویل میں دیکھنا چاہتے ہیں جس پر قائداعظم کی تصویر ہو‘‘۔
فوج پلٹ پلٹ کر اس ملک میں سیاست اور اہل سیاست کے ساتھ جو کچھ کررہی ہے اس پر ہمیں بارہا ایک لطیفہ یاد آتا ہے: ایک صبح کسی
صاحب کے گھر کے باہر کھڑی گاڑی چوری ہوگئی۔ لیکن شام ڈھلے وہی گاڑی صاف ستھری حالت میں مکمل پالش کے ساتھ اسی جگہ کھڑی پائی گئی جہاں سے چوری ہوئی تھی۔ گاڑی کے اندر ایک خط پڑا تھا جس پر تحریر تھا: ’’میں تہہِ دل سے معذرت خواہ ہوں کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا۔ میری بیوی کی ڈیلیوری کے باعث حالت تشویش ناک تھی۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیسے اسے اسپتال پہنچاؤں۔ بس اس وجہ سے میں نے چوری جیسا گھناؤنا قدم اٹھایا مگر میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں اور امید کرتا ہوں آپ مجھے اس حرکت پر معاف کر دیں گے۔ میری طرف سے آپ اور آپ کی فیملی کے لیے ایک عدد تحفہ ہے۔ آج رات کے شو کی ٹکٹیں اور ساتھ میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی قبول کیجیے۔ یہ سب اس مدد کے بدلے میں ہے جو آپ کی گاڑی کے ذریعے سے ہوئی‘‘۔ گاڑی کا مالک یہ سب پڑھ کر مسکرایا۔ بغیر محنت گاڑی بھی دھلی دھلائی ملی اور مفت میں رات کے شو کی ٹکٹیں۔ رات کو جب فیملی فلم دیکھ کر واپس آئی تو ان کے گھر ڈکیتی کی واردات کی جاچکی تھی۔ پورا گھر سامان سے خالی تھا۔ ایک خط خالی گھر میں اڑتا پھر رہا تھا جس پر لکھا تھا: ’’امید ہے فلم پسند آئی ہوگی‘‘۔
عمران خان فوج کے آہنی حصار میں ہیں جب کہ فوج عمران خان کے ریت کے گھروندے کی آڑ میں، جہاں چلنے والی ہوائیں ہر تیر کا رخ فوج کی طرف موڑ دیتی ہیں۔ عمران خان بنی گالا میں کتوں پر مشتمل اپنی اصل کابینہ سے انجوائے کرتے ہیں یا پھر ایک پیج پر رہنے سے۔ یہ کہنا کہ فوج کے بیک ڈور رابطے نہیں تو پتا کریں ایک سال پہلے دھرنے کے موقع پر مولانا فضل الرحمن کس کے رابطے میں تھے اور اس سے پہلے فیض آباد دھرنے والوں کو کیش کس بینک سے مہیا کیا گیا تھا۔ اس وقت مولانا چائے پانی اور وعدہ فردا سے بہل گئے تھے لیکن اب وہ پیزا کھا کر بھی ٹلنے والے نہیں۔ وہ مولانا کا پہلا دھرنا تھا پہلے عشق کی طرح سادہ اور معصوم، سمجھ میں نہیں آتا کیا کرنا ہے لیکن اب مولانا پیار کی فریفتگی اور والہانہ پن سے نکل آئے ہیں۔ انہیں احساس ہوگیا ہے فوج کے سب چاند تارے عمران خان کے لیے ہیں اور چائے پانی ان کے لیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج مولانا تنہا بھی نہیں ہیں، مرکز توجہات ہیں۔
متحرک اور فعال پی ڈی ایم خالی ہاتھ گھر لوٹنے والی نہیں۔ ایک عرصے سے عمران خان اپوزیشن جماعتوںکی بدعنوانی اور نااہلی کا چرچا کررہے ہیں۔ ان کے اقتدار کے تین برس پورے ہونے کے آرہے ہیں۔ وہ اور نیب ایک دوسرے کو فری ٹیوشن پڑھا رہے ہیں لیکن کسی بھی پرچے میں کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے جب کہ فوج کی ’’بوٹی‘‘ بھی دیدہ دلیری سے ہر طرف رقصاں ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ نیب سوراخوں سے بھرے اس گھڑے کی مانند ہے جو کسی کے کام کا نہیں۔ انصاف کے کسی متلاشی کے لیے اس کے دامن میں دو گھونٹ نہیں۔ آج اپوزیشن کی نہیں تحریک انصاف کے وزراء کی کرپشن ہر طرف موضوع ہے۔
اسٹیبلشمنٹ سب کے لیے محترم تھی اور ہے۔ عمران خان کو لے آئی۔ چلیں کوئی بات نہیں۔ ایک گناہ اور سہی، لیکن اب جب کہ حکومت کی نااہلی نے پورے ملک کی چیخیں نکلوادیں ہیں اسٹیبلشمنٹ کا ان کا ساتھ دینا گناہ پر اصرار ہے جو گناہ سے بڑھ کر ہے۔ فوج اس ملک کا محترم ترین ادارہ ہے لیکن کیوں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت کرنا یا حکومتیں سلیکٹ کرنا اس کا کام نہیں ہے۔ اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ آج کوئی بھی جنگ عوام کی تائید کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ کیا ہی بہتر ہو کہ فوج اپنے کام سے کام رکھے پھر دیکھیں لوگ کس طرح فوج پر واری جاتے ہیں۔
تیرے گورے گورے گال۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ
تیرے لمبے لمبے بال۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ