ایران جنگ کے دہانے پر پہنچ گیا؟

1112

ایرانی حکومت کے ترجمان علی ربیعی کا کہنا ہے کہ 2005ء سے 2015ء کے دوران میں جب ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا تھا، ایران کے جوہری سائنسدانوں پر حملے کیے گئے۔ اس قدر مشکل حالات میں بھی ایران نے مذاکرات کا دروازہ بند نہیںکیاتھا۔ لیکن 27 نومبر کو محسن فخری زادے کی ہلاکت کے صرف چار دن کے بعد ایک اور بڑی شخصیت اسلامک گارڈ کور کے کمانڈر مسلم شاہدان کو شام اور عراق کی سرحدکے قریب ڈرون حملے میں قتل کر دیا گیا۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ایران میں اس قدر خراب حالات کے باوجود ’’اسلامک گارڈ کور کے کمانڈرمسلم شاہدان‘‘ ایران سے ہزاروں میل دور کس مقصد اور ذمے داری کو پورا کرنے میں مصروف تھے۔ ایران کے سرکاری اور شام کے ’’اخبار العربیہ‘‘ نے کمانڈر مسلم شاہدان کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ یکم دسمبر کو جسار ت میں چھپنے والے آٹیکل میں ہم نے لکھا تھا کہ: ’’3جنوری 2020ء کو ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے وقت پنٹاگون کی جانب سے مستقبل میں ایسے مزید حملوں کے بارے میں مبہم بیانات دیے جارہے تھے‘‘۔ پنٹاگون کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کے پھیلاؤ کا عملی مظاہرہ وہ چیز ہے جسے ایران کو کسی بھی ردِعمل کا فیصلہ کرتے ہوئے مدِنظر رکھنا ہوگا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایٹمی پروگرام کے بانی اور اہم ترین سائنسدان محسن فخری زادے پر حملے میں صرف اسرائیل ملوث ہے شاید ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک پوری چین تھی جس نے ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادے کو ایران کی اپنی سر زمین کے اندر قتل کر دیا۔ ایرانی قیادت اس بارے میں بھی بہت سنجیدگی سے غور کر رہی ہوگی اور اسی آرٹیکل میں ہم نے لکھا تھا کہ ’’امریکا کا بحری بیٹرہ روز ویلیٹ‘‘ بحرالکاہل سے نکل کر خلیج ِ فارس کی جانب روانہ ہوگیا ہے۔ اب یہ بحرین کی بندر گاہ پر لنگر انداز ہے اور اسرائیل پر کسی حملے کی صورت میں ’’9ارب ڈالرز کے اسلحے سے لیس یہ بحری بیڑہ‘‘ کسی بھی ملک کے آسمان کو دھویں کی لپیٹ میں لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپریل 2018 میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق خفیہ دستاویزات دکھائی تھیں اور فخری زادے کا نام لیتے ہوئے اُن کو اسرائیل کے لیے مطلوب قرار دیا۔ ایٹمی سائنسدان کی ہلاکت پر ایران نے فوری طور پر اسرائیل اور امریکا کے کرائے کے قاتلوں پر اس قتل کا الزام عائد کیا تھا۔ ایران میں خیال پایا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو چاہتے ہیں کہ وہ بیس جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا دور ختم ہونے سے قبل ایران کے ساتھ کوئی عسکری تنازع کھڑا کریں۔ تہران کا کہنا ہے کہ اس حالیہ حملے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکا اور ایران کے تعلقات میں بہتری کو روکا جائے۔
ایرانی صدر حسن روحانی اور ملک کے اعتدال پسند طبقوں کو توقع ہے کہ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت 2015ء کی ویانا جوہری ڈیل کی طرف واپس لوٹ سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں یک طرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب حسن روحانی کو توقع ہے کہ بائیڈن کے آنے سے اس جوہری معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد ہو سکے گا اور ایران کو اقتصادی پابندیوں کے باعث شدید مالی مشکلات سے نجات مل جائے گی۔ سائنسدان محسن فخری زادے ایران کی مذہبی قیادت کو بہت عزیز تھے جس کی وجہ سے ایران میں سخت گیر خیالات کے حامل طبقات ایرانی سائنسدان کے قتل کا بدلہ اسرائیل پر حملہ کر کے لینا چاہتے ہیں۔ ایران کے ایک اخبار میں اسرائیل کے ساحلی شہر حیفہ پر حملے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ حیفہ اسرائیل کا تیسرا بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت بھی رکھتا ہے اس لیے اسے ٹارگٹ کرنا سب سے زیادہ سود مند ثابت ہوگا۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران اسرائیل کے ساتھ کیا کرتا ہے اور خطے میں امن برقرار رکھنے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کیا کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کا اثرو رسوخ شام، عراق، لبنان میں بے شک موجود ہے لیکن بہرحال قاسم سلیمانی اور اب مسلم شاہدان کے نشانہ بننے میں ان کا ایران سے باہر موجود ہونا اہم عنصر تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کے اعلیٰ ایٹمی سائنسدان کو نشانہ بنا لینا اور ان کے جنازے کے دن پاسداران انقلاب کے کمانڈر مسلم شاہدان پر ڈرون حملہ، ایران کے سیکورٹی اداروں کے لیے لمحہ فکر ہے جو اندرونی طور پر ایران کے لیے مشکلات کی نشاندہی کر رہا ہے۔ دشمن ایران کے خلاف پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ لیکن ایران 20برسوں بعد یہ بات بھول چکا ہے کہ شام، عراق، لبنان میں ایران کا اثرو رسوخ بڑھانے میں امریکا کا کردار کلیدی ہے۔ جہاں پر اب ایران اکیلے حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے۔
ایران کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات ڈھکے چھپے نہیں خطے کی صورتحال پہ نگاہ دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداروں کی خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ متحدہ عرب امارات، عمان، بحرین سمیت دیگر اہم خلیجی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ استوار ہوتے تعلقات، ایران کے لیے خطرنا ک ہیں۔ ایران اسرائیل کے بارے میں الزام لگاتا رہا ہے وہ میزائل اور سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرتا رہا ہے لہٰذا خطے کی صورتحال بعد از کورونا تیزی سے تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اعلیٰ ایٹمی سائنسدان کو نشانہ بنانے پر ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ محسن فخری زادے کو ایران کی اپنی سر زمین میں خودکار ریموٹ کنٹرول ہتھیار سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ وہی ہتھیار ہے جس کی مدد سے ایران، عراق، شام، امریکا، روس اور فرانس کے ساتھ اتحاد بنا کر شام میں عوام کو موت کی نیند سلاتے رہے ہیں اور عوام ان دشمنوں کو تلاش کرتے رہے ہیں کہ ان پر فائرنگ کرنے والے کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایران دوست صحافی یہ بتاتے رہے ہیں کہ یہ ہتھیار بہت بڑا ہے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تہران سے 175کلو میٹر تک یہ کہاں سے پہنچایا گیا۔ محسن فخری زادے اور مسلم شاہدان کو راستے سے ہٹانا، ایک پڑاؤ ہے۔ ایران، عراق، شام، امریکا اور روس اور فرانس کے ساتھ اتحاد بنا کر شام اور لبنان میں ایران کی مداخلت جیسے عوامل عالمی بساط میں مہرے اور کردار بدلنے کا کھیل ہے جو جاری ہے گا۔