چین میں امریکا کیخلاف سخت قانون متعارف

123

 

بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) چین نے امریکا کی جانب سے تجارتی قدغنوں کے جواب میں سخت قانون متعارف کرادیا۔ خبررساں اداروں کے مطابق نئے قانون کے تحت بیجنگ حکومت ہر اس چیز کی برآمد پر پابندی عائد کرسکے گی، جس سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں۔ یہ قانون خاص طور پر عسکری مصنوعات اور ملٹری ٹیکنالوجی پر لاگو ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بیجنگ نے یہ فیصلہ امریکی اقدامات کے جواب میں کیا۔ امریکانے چین کے خلاف ٹیکنالوجی کے میدان میں اقدامات کیے تھے،جس کے باعث چینی کمپنیاں ٹاک ٹاک، ہواوے اور ٹین سینٹ بری طرح متاثر ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت کے جوابی اقدام سے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں مزید تیزی آ جائے گی۔ دونوں ممالک کے درمیان 2018ء سے تجارت کے حوالے سے کشیدگی چل رہی ہے اور رواں سال اس میں کمی نہیں آسکی۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے چینی کمپنیوں پر الزام عائد کررکھا ہے کہ وہ بیجنگ حکومت کے ساتھ دنیا بھر میں اپنے صارفین کا ڈیٹا شیئر کرتی ہیں۔ چین کے نئے برآمدی قانون کے بارے میں نیشنل یونی ورسٹی آف سنگاپور سے منسلک پروفیسر ایلکس کیپری کہتے ہیں کہ بیجنگ اب واشنگٹن پر اپنی برتری ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ چین نے مصنوعی ذہانت اور الگورتھم ٹیک کو بھی نئے قانون کے ذیل میں لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین تجارتی کشیدگی نو منتخب صدر جو بائیڈن کے دور میں بھی ختم نہیں ہوگی۔ امریکا چین کے ساتھ سرد جنگ کی حالت میں ہے، جو ٹیکنالوجی کی لڑائی ہے۔ ایکسپورٹ کنٹرول قانون میں جوہری، عسکری اور وہ مصنوعات اور ٹیکنالوجی شامل ہیں جو روز مرہ اور فوجی ضروریات دونوں میں استعمال ہوتی ہیں۔